Deobandi Books

ہفت روزہ ضرب مؤمن27 جون تا 3 جولائی 2014

ہ رسالہ

2 - 5
تراویح کے مسائل
مسجد سے باہر تراویح کی جماعت: سوال: نماز تراویح مسجد چھوڑ کر مکان یا دوسری جگہ حافظ مقرر کر کے پڑھنا جائز ہے یا نہیں؟ (اجمل خان۔ کراچی)
جواب: فرائض مسجد میں جماعت کے ساتھ اداء کر کے صرف تراویح کی جماعت دوسری جگہ کرنا جائز ہے بشرطیکہ مسجد میں بھی تراویح کی جماعت ہو، اگر محلّہ کی کسی مسجد میں بھی تراویح کی جماعت نہ ہو تو سب گنہگار ہوں گے۔
في الہندیۃ: ’’ولو ترک أہل المسجد کلہم الجماعۃ فقد أساء وا وأثموا … وبہذا تبین أنہ إذا کان لا یختم فيمسجد حیہ، لہ أن یترک مسجد حیہ ویطوف۔‘‘ (۱/۱۱۶)
مسافر، مریض اور عورت کے لیے تراویح کا حکم:
سوال: مسافر، مریض اور عورت اگر تراویح پڑھ لیں تو کوئی کراہت تو نہیں؟ (محمد اصغر۔ مظفر آباد) جواب: تراویح مرد اور عورت دونوں کے لیے سنت مؤکدہ ہے، اس لیے خواتین کو اپنے گھروں میں انفرادی طور پر تراویح پڑھنے کا اہتمام کرنا چاہئے۔

مسافر اور مریض کو اگر تراویح پڑھنے میں کسی قسم کی تکلیف اور پریشانی نہ ہو تو پڑھنا افضل ہے۔ ’’التراویح سنۃ مؤکدۃ… للرجال والنسائ۔‘‘ (درمختار: ۲/۴۳)
عورتوں کا تراویح کی جماعت میں شریک ہونا یا خود جماعت کروانا:
سوال: بعض جگہ مساجد میں عورتوں کے لیے علیحدہ جگہ کا انتظام ہوتا ہے اور وہ مسجد کی جماعت میں شریک ہوتی ہیں۔ اسی طرح جو لڑکیاں حافظہ ہوتی ہیں وہ گھر میں تراویح پڑھاتی ہیں، گھر کی اور پڑوس کی خواتین بھی اس جماعت میں شریک ہوتی ہیں، حافظہ لڑکیوں کا کہنا ہے کہ اس کے بغیر قرآن بھول جانے کا اندیشہ ہے۔ کیا شریعت کی رو سے عورتوں کا علیحدہ جماعت کروانا یا مردوں کی جماعت میں شریک ہونا جائز ہے ؟(متعدد سائلین)
جواب:جائز نہیں، جب فرض نماز کے لیے عورتوں کا مسجد کی جماعت میں شریک ہونا جائز نہیں تو تراویح کے لیے کیسے جائز ہوسکتا ہیـ؟ عورت کی سب سے افضل نماز حدیث کی رو سے وہ ہے جو وہ گھر کے تاریک تر کمرے میں اداء کرے۔
اسی طرح عورتوں کا گھروں میںعلیحدہ جماعت کروانا بھی مکروہ ہے، نیز خواتین کا تراویح پڑھنے کے لیے گھروں سے نکلنا ضرورت میں داخل نہیں اور بلا ضرورت گھر سے نکلنا جائز نہیں، علاوہ ازیں عموماً عورتوں کی آواز گھر کے اندر یا باہر اجنبی اور غیر محرم مردوں تک پہنچتی ہے جس سے فتنہ میں مبتلا ہونے کا اندیشہ ہے، اس لیے خواتین کو اس سے سخت اجتناب لازم ہے۔ نیز سرپستوں پر فرض ہے کہ وہ انہیں اس منکر سے سختی سے منع کریں، ورنہ وہ بھی گناہ میں برابر کے شریک ہوں گے۔
قانونِ شریعت کو توڑ کر اور اﷲ تعالیٰ کو ناراض کرکے قرآن پختہ کرنا کون سی خوبی کی بات ہے؟ قرآن پڑھنے اور یاد کرنے سے تو مقصد یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ کے قوانین پر عمل کیا جائے، اگر عمل کرنے کے لیے آمادہ نہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ پڑھنے پڑھانے اور حافظہ بننے سے اﷲ تعالیٰ کو راضی کرنا مقصد ہی نہیں، مقصد لوگوں سے واہ واہ سننا یا اور کچھ ہے۔
حافظہ لڑکیوں کو چاہئے کہ پورا سال تلاوت و منزل کا اہتمام کریں، قرآن پختہ رہے گا، قرآن کی پختگی کا بہانہ بنا کر اﷲ تعالیٰ کی نافرمانی ہر گز نہ کریں۔ تراویح میں قعدہ بھول کر تیسری،
چوتھی رکعت بھی ملالی:
سوال: تراویح میں دوسری رکعت پر قعدہ بھول گیا اور سہواً تیسری چوتھی رکعت بھی پڑھ لی تو نماز صحیح ہوئی یا نہیں؟ اگر صحیح ہوگئی تو چاروں رکعات یا کہ دو؟ اگر دو ہوئیں تو پہلی دو ہوئیں یا آخری؟(خالد اقبال۔ کراچی)
جواب: اس صورت میں سجدہ سہو واجب ہے، اگر سجدہ سہو کرلیا تو اس میں دو قول ہیں، پہلا راجح قول یہ کہ دوسری دو رکعات تراویح کی ہوگئیں اور پہلی دو نفل ہوگئیں، لہٰذا پہلی دو رکعات اور ان میں جو قرآن پڑھا گیا اسے دہرانا ضروری ہے۔
دوسرا قول فقیہ أبو اللیث سمر قندی رحمہ اﷲ کا ہے کہ چار وں رکعتیں صحیح ہو گئیں، دہرانے کی ضرورت نہیں۔ جب پہلی دو رکعتوں میں قرآن کی تلاوت زیادہ مقدار میں ہوئی ہو اور اس کو دہرانے میں لوگ بوجھ محسوس کر رہے ہوں تو اس دوسرے قول پر بھی عمل کرنے کی گنجائش ہے۔ اگر سجدہ سہو نہیں کیا تو چاروں رکعات اور ان میں پڑھاگیا قرآن دہرانا ضروری ہے۔
فيالخانیۃ: ’’ إذا صلی الإمام أربع رکعات بتسلیمۃ واحدۃ ولم یقعد فيالثانیۃ، فيالقیاس تفسد صلاتہ، وہو قول محمد و زفر رحمہما اﷲ تعالیٰ … وفيالاستحسان وہو أظہر الروایتین عن أبی حنیفۃ وأبی یوسف رحمہما اﷲ تعالیٰ لا تفسد، وإذا لم تفسد، اختلفوا فيقول أبی حنیفۃ وأبی یوسف أنہا تنوب عن تسلیمۃ أو تسلیمتین؟ قال الفقیہ أبو اللیث رحمہ اﷲ تعالیٰ: تنوب عن تسلیمتین …‘‘ (۱/۲۳۹ ۔ ۲۴۰)
دوسری رکعت پر قعدہ کیا سلام نہیں پھیرا:
سوال:زید تراویح کی دوسری رکعت پر بیٹھ کر سہواً اٹھ گیا اور چار رکعت پوری کرلیں تو تراویح کی دو رکعت ہوں گی یا چار رکعت؟ سجدہ سہو واجب ہوگا یا نہیں؟(عامر خان۔ سرگودھا)
جواب:اگر دو رکعت پر بیٹھ کر تشہد پڑھ لیا پھر کھڑا ہوا تو چار رکعت ہوگئیں، سجدہ سہو کی ضرورت نہیں اور اگر تشہد مکمل کیے بغیر اُٹھ گیا تو مسئلہ بالا والی تفصیل ہے۔
في الہندیۃ: ’’وإن قعد فيالثانیۃ قدر التشہد، اختلفوا فیہ، فعلیٰ قول العامۃ یجوز عن تسلیمیتن، وہو الصحیح، ہٰکذا في فتاوٰی قاضیخان۔‘‘ (۱/۱۱۸)
ایک قعدہ سے تین رکعات تراویح:
سوال: امام تراویح کی دوسری رکعت پر بغیر قعدہ کیے سہواً کھڑا ہوگیا، تین رکعتیں پڑھ کر سجدہ سہو کرلیا تو دو رکعتیں صحیح ہوں گی یا نہیں؟(محمد الطاف۔ راولپنڈی) جواب: راجح قول کے مطابق صحیح نہیں ہوںگی، قعدہ اولیٰ عمداً چھوڑ دیا ہو یا سہواً، لہٰذا ان دو رکعتوں کا دوبارہ پڑھنا لازم ہے۔
نابالغ سامع کو صف اول میں کھڑا کرنا:
سوال: تراویح کی جماعت میں بعض جگہ سامع نا بالغ بچہ ہوتا ہے اور سامع کو صف اول میں کھڑا ہونا ضروری ہوتا ہے، کیا اس صورت میں نا بالغ کو صف اول میں کھڑا کرنا جائز ہے؟ (عطاء اﷲ۔ لاہور) جواب: نا بالغ بلا ضرورت بھی بالغین کی صف میں کھڑا ہوسکتا ہے، ضرورت مذکورہ سے بطریق اولیٰ جائز ہے۔ (أحسن الفتاویٰ: ۳/۵۱۷)
فرض پڑھے بغیر وتر کی جماعت میں شرکت صحیح نہیں:
سوال: زید ایسے وقت مسجد میں آیا کہ وتر کی جماعت کھڑی تھی تو زید وضو کر کے وتر کی جماعت میں شریک ہو جائے یا عشاء کی نماز اور تراویح اداء کرے؟
جواب: پہلے فرض پڑھے، اس کے بعد وتر کی جماعت مل جائے تو شریک ہو جائے، اس کے بعد تراویح پڑھے۔ في الہندیۃ: ’’إذا فاتتہ ترویحۃ أوتر ویحتان، فلو اشتغل بہا یفوتہ الوتر بالجماعۃ، یشتغل بالوتر، ثم یصلی ما فاتہ من التراویح۔‘‘ (۱/۱۱۷)
قرآن دیکھ کر لقمہ دینا مفسد ہے:
سوال:حافظ کو تراویح میں قرآن دیکھ کر لقمہ دینا جائز ہے یا نہیں؛(کامران۔کراچی) جواب:قرآن میں دیکھ کر لقمہ دینے والے کی نماز فاسد ہو جائے گی اور اگر امام نے لقمہ لے لیا تو سب کی نماز فاسد ہو جائے گی۔
رمضان میں قضاء عمری، ایک غلط عقیدہ:
سوال: بعض لوگ جمعۃ الوداع کو جماعت کے ساتھ قضاء نماز پڑھتے ہیں اور یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ یہ پوری زندگی کی فوت شدہ نمازوں کے لیے کافی ہے، اسے قضاء عمری کہتے ہیں۔ جبکہ بعض لوگ رمضان میں اس نیت سے فوت شدہ نمازیں قضاء پڑھتے ہیں کہ ایک نماز پڑھنے سے ستر قضاء نمازوں کی ادائیگی ہو جائے گی، کیونکہ مشہور ہے کہ رمضان میں ایک فرض کا ثواب ستر فرائض کے برابر ملتا ہے۔ شرعاً یہ عقیدہ و عمل کیسا ہے؟(فرمان اﷲ۔ پشاور)
جواب: یہ دونوں عقیدے غلط ہیں، قضاء عمری کو فقہاء نے بدعت قرار دیا ہے، اس کی شریعت میں کوئی اصل نہیں، اسی طرح ایک نماز قضاء پڑھنے سے ستر قضاء نمازوں کی ادائیگی کا بھی شرعاً کوئی ثبوت نہیں، جتنی نمازیں فوت ہوئیں ان سب کی قضاء فرض ہے، خواہ رمضان میں کرے یا غیر رمضان میں۔
ایک فرض کا ثواب ستر فرائض کے برابر ملنے کا ایک حدیث میں ذکر ہے، مگر وہ حدیث ضعیف ہے اور فضائل میں بھی ضعیف حدیث پر عمل کرنے کی شرط یہ ہے کہ اسے سنت نہ سمجھا جائے۔ اگر حدیث کو قابل استدلال تسلیم کر بھی لیا جائے تو وہ رمضان میں اداء کیے جانے والے اعمال صالحہ کے بارے میں ہے اور قضاء نمازیں پڑھنا تو قرض کی ادائیگی کی طرح ہے، کیا رمضان میں کسی کا ایک ہزار روپے قرض اداء کرنا ستر ہزار اداء کرنے کے قائم مقام ہوسکتا ہے؟ غرض اس حدیث سے ایک قضاء نماز پڑھ کر ستر نمازوں کے اداء ہو جانے کا ثبوت قطعاً نہیں ملتا۔ نیز مروجہ قضاء عمری میں بدعت ہونے کے علاوہ بھی بہت سے مفاسد ہیں، مثلاً: لوگ اسے اس عقیدہ کے ساتھ پڑھتے ہیں کہ اس سے عمر بھر یا کم از کم ایک سال کی فوت شدہ نمازیں قضاء ہو کر ان سے ذمہ فارغ ہو جاتا ہے اور یہ عقیدہ بتصریح فقہاء موجب ِ کفر ہے۔
اسی طرح قضاء نماز اس طرح پڑھنا کہ دیکھنے والوں کو معلوم ہو جائے کہ قضاء نماز پڑھی جا رہی ہے مکروہ تحریمی ہے، خواہ مسجد میں ہو یا مسجد سے باہر ہو۔
وہیل چیئر پر بیٹھ کر امامت:
سوال: ایسے معذور قاری کے پیچھے تراویح پڑھنا کیسا ہے جو سجدہ کرنے کی استطاعت نہ رکھتا ہو اور وہیل چیئر (کرسی) پر بیٹھ کر اشارے سے سجدہ کرتا ہو؟ (محمد جہانگیر خلیل۔ پشاور) جواب: ایسے معذور کے پیچھے نماز درست نہیں۔
پندرہ سالہ لڑکے کے پیچھے تراویح درست ہے:
سوال: ایک حافظ جس کی عمر پندرہ سال چار ماہ ہے اور وہ خود کو بالغ کہتا ہے، لیکن بلوغ کی ظاہری علامات اس پر دکھائی نہیں دیتیں، کیا ایسے حافظ کے پیچھے تراویح جائز ہے؟ اس کے والد نے جواز کا فتویٰ بھی لیا ہے، مگر ایک اور مولوی صاحب کہتے ہیں کہ سن بلوغ سترہ سال ہے۔ یہ ابھی بالغ نہیں ہے۔ برائے کرم ہماری تشویش کو دور فرمائیں۔ (محمد اصغر، عزیز احمد وغیرہ۔ تونسہ شریف)
جواب: سنِ بلوغ ۱۵ سال ہے، ظاہری علامات کا اعتبار نہیں ہے، پھر جب وہ خود بلوغ کا اقرار کرتا ہے تو شک کی کوئی وجہ نہیں۔
لہٰذا اس حافظ کے پیچھے بلا تشویش تراویح پڑھتے رہیں۔
تراویح آٹھ رکعت یا بیس رکعت:
سوال: بعض لوگ آٹھ رکعت تراویح پڑھ کر چلے جاتے ہیں، کیا اس کا حدیث سے کوئی ثبوت ہے؟ (حافظ محمد طاہر۔ باغ آزاد کشمیر)
جواب: آٹھ رکعت کا کوئی ثبوت نہیں۔ صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم اجمعین، ائمہ اربعہ اور تمام فقہاء کرام رحمہم اﷲ تعالیٰ کا چودہ سو سال سے بیس رکعت تراویح پر اجماع اور مسلسل تعامل چلا آرہا ہے۔ في الدر: ’’وہي عشرون رکعۃ … بعشر تسلیمات۔‘‘ وفي الحاشیۃ: ’’ ہو قول الجمہور، وعلیہ عمل الناس شرقا وغربا۔‘‘ (ردالمحتار مع الدر: ۲/۴۵ ، أحسن الفتاویٰ: ۳/۵۲۷) تراویح پڑھے بغیر وتر کی
جماعت میں شرکت:
سوال: بکر ایسے وقت میں آیا کہ تراویح کی جماعت اختتام پر تھی، بکرنے فرض و سنن مؤکدہ اداء کیں تو تراویح کی جماعت ختم ہو کر وتر کی جماعت کھڑی ہوگئی تو کیا بکر وتر کی جماعت میں شریک ہو جائے یا اپنی تراویح پڑھے، اگر کچھ تراویح رہ گئی ہوں تو پھر کیا حکم ہے؟ (خالد حسین۔ مری) جواب:دونوں صورتوں میں وتر کی جماعت میں شریک ہو جائے، اس کے بعد تراویح پڑھے۔
دو سورتوں کے درمیان بسم اﷲ کا حکم:
سوال: تراویح میں دو سورتوں کے درمیان بسم اﷲ کا کیا حکم ہے؟ جہراً پڑھی جائے یا سراً؟ یا بالکل ترک کردی جائے؟ جیسا کہ بعض ایسا کرتے ہیں، نیز فرائض میں تسمیہ بین السور تین کا کیا حکم ہے؟ جواب: فرائض و تراویح دونوں میں دو سورتوں کے درمیان بسم اﷲ پڑھنا افضل ہے، مگر قراء ت خواہ جہریہ ہو یا سریہ، بہر کیف بسم اﷲ آہستہ پڑھے، اس میں جہر خلاف سنت ہے۔ چونکہ تسمیہ قرآن کریم کا جزء ہے اس لیے تراویح میں کسی بھی ایک سورۃ کے ساتھ بلند آواز سے ضرور پڑھے تاکہ مقتدیوں کا قرآن مکمل ہو جائے۔
شبینہ کا حکم:
سوال:گذشتہ چند سال سے یہ طریقہ رائج ہے کہ تراویح پڑھانے والا بارہ رکعت کے بعد مصلی چھوڑ دیتا ہے اور بقیہ آٹھ تراویح امام صاحب پڑھاتے ہیں، کچھ مقتدی بھی حافظ کے ساتھ تراویح چھوڑ دیتے ہیں اور وتر کی جماعت کے بعد حافظ صاحب اپنی بقیہ آٹھ رکعت تراویح شروع کرتے ہیں تو دوسرے بہت سے مقتدی بھی ان کے ساتھ نوافل کی نیت سے نماز میں شریک ہو جاتے ہیں، شبینہ تقریباً دو اڑھائی بجے تک رہتا ہے، اس کے لیے لاؤڈ اسپیکر کا خاص انتظام ہوتا ہے، بعض حضرات کو متوجہ کیا گیا کہ چند آدمیوں کے لیے لاؤڈ اسپیکر کا استعمال سوائے نمائش کے کچھ بھی نہیں تو انہوں نے یہ موقف اختیار کیا کہ گانا بجانا عام ہے، جگہ جگہ ریکارڈنگ ہوتی ہے، تو ہم کیوں لاؤڈ اسپیکر استعمال نہ کریں ؟اس کا شرعاً حکم کیا ہے؟
جواب: اس قسم کے متعارف شبینہ میں کئی قبائح ہیں، مثلاً:
(۱) نوافل کی جماعت۔
اگر حافظ اور کچھ مقتدی تراویح پڑھ رہے ہوں تو یہ خرابی اگر چہ نہ ہو گی مگر مندرجہ ذیل قباحتیں تو بہر حال ہیں۔
(۲) لاؤڈ اسپیکر کی وجہ سے اہل محلّہ کے کام، آرام اور عبادات میں خلل۔
(۳) نام و نمود۔
(۴) بعض لوگوں کا جماعت میں کھڑے ہونا اور بقیہ کا بیٹھے رہنا،جو جماعت اور قرآن کے احترام کے خلاف ہے۔
(۵) ضرورت سے زیادہ روشنی اور مٹھائی وغیرہ کا التزام۔
(۶) اس غلط رسم کے لیے چندہ کرنا، جبکہ بعض لوگ بغیر طیب خاطر کے محض مروت میں چندہ دیتے ہیں،جس کا استعمال حرام ہے۔
اس قسم کی اور بھی بہت سی خرابیاں ہیں جن کی بناء پر مروّجہ شبینہ جائز نہیں۔ (أحسن الفتاویٰ: ۳/۵۲۱) واﷲ سبحانہ وتعالیٰ اعلم
Flag Counter