متوازن تعبیر، روشن تصویر
آج کل مدارس کی سالانہ تقریبات ہورہی ہیں۔ مدارس کی کارگذاری سال بھر کی محنتوں کا نچوڑ، ختم بخاری شریف کے مستجاب موقع پر رقت انگیز دعائیں، اسا تذہ کی نصیحتیں، طلبہ کے چمکتے دمکتے پرنور چہرے، فضلاء کی آہیں، سسکیاں اور آنسو… کہ کسی طرح اللہ تعالیٰ ان کو بھی اپنے اکابر اور اساتذہ کی طرح قبول فرما… کیسے روح پرور مناظر ہیں؟ ایسے میں جامعۃ الرشید کا سالانہ جلسہ بھی صرف اور صرف اللہ کے فضل و کرم سے ایک منفرد مثال اور قابل تقلید نمونہ قائم کرچکا ہے۔ دنیوی شعبہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے جدید تعلیم یافتہ طبقے کو دین کی دعوت اور مدارس کا تعارف اور دونوں طبقوں کے بیچ پایا جانے والا خلا پاٹنے کے لیے اس نے علماء اور مدارس کی برادری کی طرف سے منفرد انداز میں نمایندگی کی ہے۔ اللہ کے توفیق سے ذہن یہ پایا جاتا ہے کہ یہ محض جامعہ کا نہیں، محض وفاق اور مدارس دینیہ کا بھی نہیں، بلکہ دینِ اسلام کے حاملین و مبلغین کی اہلیت و صلاحیت کا ثبوت اور اسلام کا بہترین تعارف ہو۔ اس مرتبہ ایک جاپانی مندوب کی شرکت سے یہ تاثر اور گہرا ہو گیا ہے۔ اب یہ ایسا اجتماع ہے کہ غیر مسلموں کے سامنے بھی اسلام کی خوبصورت تعبیر اور دل نشین استعارہ قرار پاتا جا رہا ہے۔
مدارس کے سالانہ اجتماعات دو قسم کے ہیں: ختم بخاری شریف اور سالانہ جلسہ۔ ان دو کے حوالے سے ہمارے ہاں تین طرح کے مزاج یا رویّے پائے جاتے ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ سب اپنی جگہ خیر سے خالی نہیں۔ بعض حضرات ختم بخاری شریف کے
وقت کا پہلے سے اعلان نہیں کرتے۔ سالانہ جلسہ کا ان کے ہاں اہتمام نہیں ہوتا۔ یہ حضرات استغناء و توکل کے حوالے سے اپنا ایک مزاج اورسوچ رکھتے ہیں۔ کسے شک ہوسکتا ہے کہ یہ بھی ایک سوچا سمجھا رویّہ ہے۔ بعض حضرات بہت زیادہ تشہیر کرتے ہیں۔ چار اور آٹھ رنگوں کی کتابت و طباعت کا اشتہار چھاپتے ہیں۔ جلسے کے معیار سے زیادہ تشہیر کی مقدار پر توجہ رکھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی کوششوں میں بھی بہتری اور بڑھوتری نصیب فرمائے۔ جامعۃ الرشید کے کارپردازوں نے محض اللہ کے کرم اور توفیق سے اپنی دیگر اختراعات کی طرح سالانہ جلسے کو بھی ایسے دھنگ ڈھنگ سے منعقد کرنے کی روایت ڈالی کہ سبحان اللہ! مجھے بعض مہمانوں نے رخصت ہوتے وقت بے اختیا ر کہا :’’شاہ صاحب! سچی بات یہ ہے کہ ہم لوگ آج دل میں یہ اطمینان لے کر جارہے ہیں کہ ان شاء اللہ! مستقبل اسلام اور مسلمانوں کا ہے۔ اس سے پہلے ہم دیندار ہوتے ہوئے بھی یہ سمجھتے تھے کہ ہم لوگ شکست خوردہ ہیں۔ ہمارا کو ئی حال نہیں۔ مستقبل تو ویسے بھی روز بروز ہماری گرفت سے نکلتا جا رہا ہے۔‘‘ مجھے پہلے تعجب ہوا کہ بظاہر اتنے دیندار اور تعلق رکھنے والے احباب کو بھی میڈیا کی یلغار نے کس قدر پژمردہ اور مایوس کر رکھا ہے ؟ صبح شام ناکام قوم، ناکام ر یاست اور ناکام ملت کی باتیں، خبریں، رپورٹیں سن سن کر بے چارے اندر سے کس قدر ٹوٹ چکے ہیں۔ پھر الحمدللہ مسرت بھی ہوئی کہ اللہ تعالیٰ کے کرنے سے انہیں علماء اور ان کے معاون دیندار حضرات کی اہلیت و صلاحیت پر اتنا اعتماد تو ہوا کہ اپنے آپ پر اعتما آگیا کہ ہمارا بھی کوئی مستقبل ہے اور ان شاء اللہ ضرور ہے۔
اس وقت بہت زیادہ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم قوم کو اس کے شاندار ماضی یاد دلانے اور اس پر فخر کرنے کی عادت ڈالنے کے ساتھ حال کی متوازن تعبیر کریں اور مستقبل کی روشن تصویر دکھائیں۔ حوصلوں کو بلند رکھنا ضروری ہے، تب موقع ملتے ہی نا ممکن ممکن ہوجاتا ہے۔ نجانے خدا کس بچے، کس نوجوان یا کس بوڑھے سے کیا کام لے لے؟ اور تاریخ کا ورق الٹتے ہی کایا پلٹ جائے۔ اس کے بعد ضرورت اس بات کی ہے کہ حسنِ عمل کے ساتھ ہم حسنِ اظہا ر کے فن سے آگاہ ہوں۔ دعائے ابراہیمی ہے: ’’وَ اجْعَلْ لِیْ لِسَانَ صِدْقٍ فِیْ الْاٰخَرِیْنَ‘‘ (الشعرائ:84) ’’اور آنے والی نسلوں میں میرے لیے وہ زبانیں پیدا فرما جو میری سچائی کی گواہی دیں۔‘‘
عوام جب تک علماء اور مدارس کے بارے میں ’’کلمۃ صدق‘‘ نہیں سنے گی، ’’حسن ظن‘‘ نہیں رکھے گی۔ اور یہ کام دعوی سے نہ ہو، بلکہ عملی دلیل سے ہو جو زبانی دعوی کو خود بخود ماننے پر اور دل کی گہرائیوں سے سچا سمجھنے پر مجبور کرتی ہے۔ عوام کے دل میں مایوسی کو اتار دیا گیا ہے، وہ جب تک دل سے بے ساختہ اعتماد کا جوابی اظہار نہ کریں گے، تب تک ہم ادھوری محنت اور ا دھور افرض ادا کر رہے ہیں۔ ہمارا فرض جہاں یہ ہے کہ صبح سے شام تک محنت کریں، وہاں یہ بھی ہے کہ اس محنت کے ثمرات و برکات کو قوم سے منوائیں۔ انہیں مایوسی کے دلدل سے نکال کر خود اعتمادی سے سرشار کریں۔ پاکستان میں علماء کی اور افغانستان میں مجاہدین کی قربانیاں لاثانی اور لازوال ہیں۔ جو لوگ ان سے خائف ہیں ان کی کوشش ہے، ان دونوں معزز طبقات کے کردارکا یہ حسین اور رتابناک رخ قوم سے مخفی رہ جائے۔ ان کی ساکھ بہتر نہ ہو۔ انہیں مقبولیت حاصل نہ ہو۔ ہم کو دو دھاری تلوار سے مکمل جنگ لڑنی ہے۔ کام کو بھی بہتر بنانا ہے اور نام کو بھی اجلا رکھنا ہے۔ اللہ تعالیٰ جامعۃ الرشید کی طرح تمام جامعات، تمام دینی تحریکوں اور اداروں کو عصر حاضر کا یہ تقاضا سمجھ کر اسے بحسن و خوبی نبھانے کی توفیق دے۔