دیکھی اَن دیکھی سرگزشت
الحمدللہ! اس بار بھی سالانہ تقریب ذہنوں پر اپنے ان مٹ نقوش چھوڑ گئی۔ جامعۃ الرشید کی ایک تابندہ روایت ملک عزیز کے تابناک او روشن مستقبل کی نوید بن گئی۔ کئی آوازیں اُبھریں…! صدائے باز گشت سنائی دی…!
t دیکھو! یہ ہے پاکستان۔ مایوسی اور نااُمیدی کی باتیں نہ کرو۔ دیکھتی آنکھوں سے دیکھ لو، ہزاروں کا مجمع کیسے شاندار نظم و ضبط، صبر و تحمل کا مظاہرہ کررہا ہے۔ کوئی شور شرابہ نہیں۔ کوئی آپا دھاپی نہیں۔ اطمینان و سکون کے ساتھ کئی گھنٹوں سے بیٹھا ہوا ہے۔ یہی ڈسپلن روشن پاکستان کی نوید سُنا رہا ہے۔ t یہ کیسا کنووکیشن ہے۔ نہ ٹوپیاں اُچھالی گئیں، نہ چیخیں سنائی دیں، نہ اُچھل کود دکھائی دی۔ ہے نا عجیب بات!
t کیسے باوقار، سعادت مند، چمکتے دمکتے چہروں پر اطمینان و سکون دکھائی دے رہا ہے۔ جو دھیمے قدموں اور جھکی نظروں کے ساتھ احترام و عقیدت کے ساتھ چلتے ہوئے اپنے اساتذہ اور اپنے بڑوں کے سامنے سر جھکا کر کھڑے ہورہے ہیں اور دستاریں اپنے سروں کی زینت بنادیتے ہیں۔ سبحان اللہ! اہلِ مدارس کی یہی شان ہوتی ہے۔ t یہ کیسے چاک و چوبند نوجوان ہیں جو مہمانوں کے سامنے بچھے بچھے جاتے ہیں۔ مسکراتے چہروں سے اُن کا استقبال کرتے ہیں۔ نشستوں پر بٹھاتے ہیں۔ پانی پیش کرتے ہیں اور اگر آپس میں بات کرتے ہیں تو دھیمے لہجے میں
ماشاء اللہ! یہ سب کچھ اُن کے اساتذہ کی تربیت کا نتیجہ ہی تو ہے۔ اللہ کریم ان اساتذہ کے علم و عمل میں برکت عطا فرمائے۔ آمین یہ کیسا مجمع ہے؟ اس میں اکابر علمائے کرام ہیں اور تاجر بھی ہیں، صنعت کار بھی ہیں، قانون دان بھی ہیں، وکیل بھی ہیں، وائس چانسلر بھی ہے، ریٹائرڈ فوجی جرنیل بھی ہیں، ماہر تعلیم بھی ہیں، صحافی بھی ہیں، مفکر و دانشور بھی، یونیورسٹیوں اور کالج کے اساتذہ بھی اور شاگرد بھی ہیں۔ یہ سب لوگ ایک جگہ کیسے اکٹھے ہوگئے نہ کوئی آواز لگائی گئی، نہ کوئی اشتہار دیا گیا۔ پھر یہ کیسے ممکن ہوا؟ یہ جامعہ کے اُن معاونین کا کارنامہ ہے جو داعی بن کر معاشرے کے ہر طبقے سے چنیدہ لوگوں کا انتخاب کرنے، اُن تک دعوت پہنچانے میں رات دن ایک کردیتے ہیں۔ اشاعتِ دین میں اپنا حصہ منفرد انداز میں ڈال رہے ہیں۔ اللہ اُن کے دین، جان مال میں برکت عطا فرمائے۔ آمین
t اور اسٹیج کے ڈائس پر کھڑا یہ وجیہ، باوقار نوجوان کون ہے؟ یہ جب بولتا ہے تو اُس کے منہ سے پھول جھڑتے ہیں۔ اُس کے لبوں سے نکلنے والا ایک ایک لفظ کانوں میں شہد کا رَس گھول دیتا ہے۔ سارے کا سارا مجمع ہمہ تن گوش ہوجاتا ہے۔ یہ ہے کون ذات شریف؟ سنو! جامعۃ الرشید کے ماتھے کا جھومر ہے یہ نوجوان۔ جو جامعہ کی شناخت ہے، پہچان ہے، آن بان شان ہے اور کلیۃ الشریعہ کی روح رواں ہے۔.
t اور یہ اسٹیج کے اوپر جو اسکرین روشن ہے، اس پر خوبصورت رنگوں اور ڈیزائنوں کی میناکاری کس نے کی؟ یہ خوبصورت دستاویزی پروگرام کس نے بنائے؟ عجب اَثر تھا ان دستاویزی پروگراموں کا۔ پورے کا پورا مجمع مبہوت ہوکر سن رہا تھا، دیکھ رہا تھا، یہ کاریگر تھا کون؟ یہ فن کار اُن سر پھروں میں سے ہے۔ جسے کام کی دُھن سونے نہیں دیتی، اُس کی انگلیاں کمپیوٹر کی بورڈ پر برق رفتاری کے ساتھ چلتی رہتی ہیں۔ ذہن، رنگوں اور ڈیزائنوں کے تانے بانے سلجھانے اور نکھارنے میں مصروف رہتا ہے۔ وہ اپنے فن کے میدان کا وہ شہہ سوار ہے جس نے معیار کو ہر قیمت پر جیتا ہے۔
t اور یہ پنڈال، یہ اسٹیج، یہ بڑے بورڈ، یہ نشستیں اور یہ روشنیاں اور اتنے بڑے مجمعے کے کھانے کا انتظام، نماز کا انتظام کیسے ممکن ہوا؟ یہ اللہ کا کام ہے۔ اللہ ہی نے کیا۔ اُس کے پسندیدہ بندے ذریعہ بنے۔ اُن میں ایک تو وہ ہے جو یتیموں اور بے سہارا بچوں کو اپنی آغوش میں سمیٹے بیٹھا ہے۔ دوسرا وہ جو معاشرے کو حرام سے بچانے کی فکر میں سرگرداں ہے۔ تیسرا وہ ہے جو سر جھکائے ایک خاموش اور گم نام سپاہی کی طرح مصیبت زدہ غریبوں اور محتاجوں کی خبر گیری میں مصروف رہتا ہے۔ چوتھا وہ جو کیمبرج یونیورسٹی بھول کر شریعت اور تجارت ساتھ ساتھ کی آواز لگارہا ہے۔ پانچواں، چھٹا، ساتواں… اور 80 کمیٹیوں میں 7 سو سے زیادہ بہت سے ایسے مخلص، محنتی اور ذمہ دار ساتھی جنہوں نے ایک نظم کو قائم کرنے کے لیے دن دیکھا نہ رات دیکھی۔ لگے رہے اور ان سب کی پشت پر اس ہستی کی دُعائیں تھیں، ریاضتیں تھیں، بصیرت تھی، تجربہ تھا، حکمت و دانش تھی۔ اور سب کو ساتھ لے کر چلنے کی وہ گرانقدر صلاحیت اور اصل قوت (Driving Force) جو اہلِ جامعہ کی خوش نصیبی ہے۔ اللہ جل جلالہٗ انہیں اپنے حفظ و امان میں رکھے۔ (آمین) الحمدللہ! اس تقریب کے طفیل مدارس دینیہ کا اُجلا نکھرا چہرہ سامنے آیا ہے جس کے دُور رَس اَثرات مرتب ہوں گے۔ دھند چھٹے گی، حق سامنے آئے گا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ورثا اس قوم کی نیّا پار لگائیں گے۔ ان شاء اللہ!