Deobandi Books

قومی اسمبلی میں قادیانی مسئلہ پر بحث کی سرکاری رپورٹ جلد 4 ۔ غیر موافق للمطبوع

55 - 444
	جناب یحییٰ بختیار:  تو پھر غلط فہمی کس بات کی؟ آپ کو بھی ہوئی، مجھے بھی ہوئی۔
	جناب عبدالمنان عمر:  نہیں جی، سب کو نہیں ہوئی ہے۔
	1758جناب یحییٰ بختیار:  سب کو نہیں جی، جس کو بھی ہوئی…
	جناب عبدالمنان عمر:  جی ہاں۔
	جناب یحییٰ بختیار:  …میں ان کا ذکر کر رہاہوں۔ 
	جناب عبدالمنان عمر:  جی ہاں۔ 
	جناب یحییٰ بختیار:  انہوں نے ان سے عرض کیا کہ ’’مرزاصاحب! یہ آپ لفظ لغوی معنوں میں استعمال کر رہے ہیں۔ مجازی معنوں میں استعمال کر رہے ہیں۔ مگر لوگوں میں غلط فہمی ہوگئی ہے۔ بعض لوگوں میں غلط فہمی ہو گئی ہے۔ اس کو آپ دور کیجئے۔ تو انہوں نے کہا کہ ’’ہاں، یہ ٹھیک ہے۔ میری سادگی سے ہوئی ہے۔ میرا مطلب یہ نہیں تھا کہ میں اصلی معنوں میں نبی ہوں۔ اس لئے آئندہ جہاں بھی لفظ ’’نبی‘‘ ہو۔ اس کی جگہ آپ ’’محدث‘‘ کا لفظ استعمال کریں اور میری کتابوں میںلفظ ’’نبی‘‘ کو منسوخ سمجھیں اور اس کی جگہ پر ’’محدث‘‘ کا لفظ پڑھا جائے۔‘‘	
	بالکل ٹھیک بات تھی۔ واضح ہوگئی بات۔ مگر اس کے بعد مرز اصاحب نے پھر’’نبی‘‘ کا لفظ استعمال کرنا شروع کیا۔ لکھنا شروع کیا اور کہتے رہے۔ تو جب لفظی جھگڑا تھا اور لوگوں کو غلط فہمی تھی۔ اس کے باوجود انہوں نے پھر اس کو کہا کہ ’’میں یہ لفظ پھر بھی استعمال کروں گا۔‘‘ تو آپ نے کل یہ فرمایا کہ ’’ان کے لئے کوئی، کوئی چارہ نہ تھا، اﷲ کی طرف سے حکم تھا۔‘‘
	جناب عبدالمنان عمر:  میں گزارش یہ کرتاہوں جی، کہ اس حوالے نے مرزا صاحب کی پوزیشن کو بالکل واضح کر دیا ہے۔ مرزاصاحب فرماتے ہیں کہ ان کا اعتراض جو میں سمجھا ہوں، وہ یہ ہے کہ جب لفظ نبی سے بعض لوگوں کو غلط فہمی ہوتی تھی تو ان کی غلط فہمی کا دور کرنا ضروری تھا۔ چنانچہ مرزاصاحب نے ان کی غلط فہمی دورکردی۔ اب ایک اور طبقہ مرزا صاحب کا مخاطب ہے۔ اب ایک اور حلقہ ہے جو مرزاصاحب کا مخاطب ہے۔ 1759وہ طبقہ وہ ہے جو محض وحی اور محض مکالمہ مخاطبہ الٰہیہ کو بھی ناجائز سمجھتاہے۔ وہ کہتا ہے کہ وحی نازل ہی نہیں ہو سکتی اور اس قسم کی نبوت کبھی دنیا میں جاری نہیں ہے۔ ان کو مرزاصاحب نے بتایا کہ ’’دیکھو!نبوت بیشک بند ہے، ہر قسم کی نبوت بند ہے۔ لیکن مکالمہ ، مخاطبہ الٰہیہ جو ہے، وہ بند نہیں ہوا، وہ جاری ہے اور اس قسم کے الفاظ میرے استعمال کرنے جو ہیں، وہ صرف یہ مضمون بتانے کے لئے ہیں کہ خدا مجھ سے ہم کلام ہوتا ہے۔‘‘
	میں ان کی بالکل آخری زمانے کی تحریر، جس کے دو دن کے بعد آپ کی وفات ہوئی ہے، وہ پیش کرتا ہوں تاکہ یہ غلط فہمی دور ہو جائے کہ کسی زمانے میں تو مرزا صاحب یہ باتیں کہتے تھے۔ لیکن بعد میں انہوں نے چھوڑ دیا اس کو۔ یہ پوزیشن نہیں ہے۔ ان کی وفات سے دو دن پہلے کی تحریر ہے، جو شائع ہوئی تھی ان کی وفات والے دن، ۲۶؍مئی ۱۹۰۸ء کو اخبار عام میں، اس میں مرزا صاحب فرماتے ہیں:’’میں ہمیشہ اپنی تالیفات کے ذریعے سے لوگوں کو اطلاع دیتا رہا ہوں اور اب بھی ظاہر کرتاہوں…‘‘ کوئی ترمیم نہیں ہے۔ ’’جو شروع سے کہا وہ اب بھی ظاہر کرتاہوں۔‘‘
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
Flag Counter