Deobandi Books

قادیانی شبہات کے جوابات جلد 3 ۔ غیر موافق للمطبوع - یونیکوڈ

40 - 271
ہم از کود کی سوئے این تاختم
دریں شغل خود را بیند اختم
جوانی ہمہ اندریں باختم
دل از غیر ایں کار پردا ختم
(براہین احمدیہ حصہ دوم ص۹۵، خزائن ج۱ ص۸۵)
	یہ عبارت پکار پکار کر کہہ رہی ہے کہ مرزاقادیانی نے مختلف مذاہب کی کتب کا خوب مطالعہ کیا۔ ہر مذہب کے دفتر کے دفتر پڑھ ڈالے۔ ہرقوم کے راہنما کی زندگی کا جائزہ لیا اور اس کام میں جوانی کھپا دی۔ چنانچہ مولانا ثناء اﷲ امرتسریK نے ’’مرزاقادیانی اور بہاء اﷲ‘‘ نام کا رسالہ تصنیف کیا اور اس میں ثابت کیا کہ مرزاقادیانی کے تمام دعوے مہدویت ومسیحیت سب بہاء اﷲ کی تعلیمات کی کاپی ہیں۔ خیر! دیکھئے کہ مرزاقادیانی کو ان دنوں کتب بینی کا کتنا شغف تھا کہ خود مرزاقادیانی کے والد کے حوالہ سے مذکور ہے کہ: ’’شدت اور مطالعہ وتوغل کتب میں مشغولیت اور محویت دیکھ کر (مرزاقادیانی کے والد نے) یہ سمجھ لیا تھا کہ آپ دنیا کے کسی کام کے لائق نہیں اور اکثر دوستوں کے آگے یہی بات پیش کیاکرتے کہ مجھے تو غلام احمد کا فکر ہے کہ یہ کہاں سے کھائے گا اور اس کی عمر کس طرح کٹے گی۔ بلکہ بعض دوستوں کو یہ بھی کہا کرتے تھے کہ آپ ہی اس کو سمجھاؤ کہ وہ اس استغراق کو چھوڑ کر کمانے کے دھندے میں لگے۔ اگر کبھی کوئی اتفاق سے ان سے کوئی دریافت کرتا کہ مرزا غلام احمد کہاں ہیں؟ تو وہ یہ جواب دیتے کہ مسجد میں جاکر سقاوہ کی ٹوٹنی میں تلاش کرو۔ اگر وہاں نہ ملے تومایوس ہوکر واپس مت آنا۔ مسجد کے اند چلے جانا اور کسی گوشہ میں تلاش کرنا۔ اگر وہاں بھی نہ ملے تو پھر بھی نا امید ہوکر لوٹ مت آنا کسی صف میں دیکھنا کہ کوئی اس کو لپیٹ کر کھڑا کر گیا ہوگا۔ کیونکہ وہ تو زندگی میں مرا ہوا ہے اور اگر کوئی اسے صف میں لپیٹ دے تو وہ آگے سے حرکت بھی نہیں کرے گا۔‘‘    (مسیح موعود کے مختصر حالات ص۶۷، از معراج الدین قادیانی)
	آگے چلنے سے پہلے اس عبارت پر توجہ کر لی جائے کہ مرزاقادیانی کے والد تو اسے نکما قرار دیتے ہیں۔ لیکن کتاب کا قادیانی مؤلف تاویل کرتا ہے کہ: ’’وہ (مرزاقادیانی) زندگی میں مرے ہوئے تھے۔‘‘ لیکن یہ نہ سوچا کہ کوئی کسی کو صف میں لپیٹ دے تو وہ لپٹا رہے۔ حرکت نہ کرے۔ یہ تو مرا ہوا کی طرح ہے۔ لیکن یہ کہ سقاوہ کی ٹوٹنی میں دیکھنا اس کا کیا معنی ہے؟ مرا ہوا آدمی ٹوٹنی میں کیسے چلا جاتا ہے؟ اس کی مرزائی مؤلف کو کوئی تاویل نہ سوجھی۔ مجھ سے پوچھو تو (۱)خود مرزاقادیانی کا اعتراف ہے کہ میں کرم خاکی ہوں۔ مٹی کا کیڑا ہوں تو مرزاقادیانی کا والد بھی مرزاقادیانی کو کیڑا سمجھتا ہوگا۔ تب ہی تو ٹوٹنی میں گھسنے کا کہا۔ (۲)یہ کہ وہ مرزاقادیانی کو جن، بھوت، شیطان سمجھتا ہوگا۔ جو جنس بدل کر کیا سے کیا ہوجاتے ہیں۔ (۳)یا یہ اس نے مرزاقادیانی کو شیطان کی ٹوٹنی کہا ہوگا کہ وہ صف میں لپٹا کھڑا ہوگا۔ شیطان کی ٹوٹنی کو مرزائی مؤلف نے سقاوہ کی ٹوٹنی سمجھ لیا۔ خیر قادیانی جانے ان کا کام، نیا نبی اور ان کا والد۔ قادیانی مرزاقادیانی کو ٹوٹنی میں داخل کریں یا صف میں لپیٹیں۔ ہمارا اس سے کیا تعلق؟
	مقدمہ بازی، مناظرہ بازی، کتب بینی، یہ مرزاقادیانی کے مشاغل تھے۔ مرزاقادیانی عیسائیوں، ہندوؤں، آریوں سے الجھاؤ بازی کے مشغلہ میں سرگردان رہا۔ قادیانیوں نے مرزاقادیانی کے اشتہارات کو پہلے ’’تبلیغ رسالت‘‘ کے نام پر دس حصوں میں شائع کیا۔ پھر ان کو ’’مجموعہ اشتہارات‘‘ 
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
Flag Counter