Deobandi Books

قادیانی شبہات کے جوابات جلد 3 ۔ غیر موافق للمطبوع - یونیکوڈ

37 - 271
ہے۔ (سیرۃ المہدی حصہ اوّل ص۱۳۱، روایت۱۳۲) کے مطابق پنشن سات سوروپے تھی۔ اس زمانہ میں (سیرۃ المہدی حصہ اوّل ص۱۸۲، روایت نمبر۱۶۷) کے مطابق ایک آنہ کا سیرخام گوشت ملتا تھا۔ اب ذرا حساب لگائیں تو سات سو روپیہ کے گیارہ ہزار دو سو آنے بنتے تھے۔ فی آنہ ایک سیر کا معنی گیارہ ہزار دو سو کلو گوشت۔ اس سات سو روپیہ میں مل سکتا تھا۔ آج کل گوشت چار صد روپیہ فی کلو ہے۔ گیارہ ہزار دو سو کلو گوشت کی قیمت فی کلو چار سو روپیہ کے حساب سے چوالیس لاکھ اسی ہزار روپیہ بنتی ہے۔ آج اس دور میں اتنی خطیر رقم مرزاقادیانی اور امام الدین اس کے ہمجولی نے ادھر ادھر کہاں کہاں خرچ کی؟ اے کاش! قادیانی اس پر غور کریں۔
	اب مرزاقادیانی نے گھر آنے کی بجائے سیالکوٹ میں قلیل تنخواہ پر (پندرہ روپیہ ماہوار) پر ملازمت کر لی۔ دیکھئے (سیرۃ المہدی حصہ اوّل ص۴۳، روایت نمبر۴۹) اس ملازمت کے دوران مرزاقادیانی کے ہم عصر لوگوں کی روایات ’’چودھویں صدی کا مسیح‘‘ کے مصنف جو سیالکوٹ کے رہنے والے تھے۔ مرزاقادیانی کے زمانہ حیات میں اپنی مندرجہ بالا کتاب میں شائع کیں کہ اِدھر اُدھر کے عادی مرزاقادیانی نے ادھر ادھر سے خوب مال بنایا۔
	مرزااحمد علی اثنا عشری امرتسری کتاب (دلیل العرفان) میں لکھتے ہیں کہ منشی غلام احمد امرتسری نے رسالہ ’’نکاح آسمانی کے راز ہائے پنہانی‘‘ میں مرزاغلام احمد کے حین حیات بڑے طمطراق سے لکھا۔ انہوں نے زمانہ محرری میں خوب رشوتیں لیں۔ یہ رسالہ ۱۹۰۰ء میں یعنی مرزاقادیانی کی وفات سے آٹھ سال پیشتر شائع ہوا تھا۔ لیکن مرزاقادیانی نے اس الزام کی کبھی تردید نہ کی اور نہ زمانہ محرری میں اپنی دیانت ثابت کر سکے۔ (دلیل العرفان مؤلفہ مرزا احمد علی امرتسری ص۱۱۳) اس طرح مولوی ابراہیم صاحب سیالکوٹی نے مناظرہ روپڑ میں جو ۲۱،۲۲؍مارچ ۱۹۳۲ء کو ہوا ہزارہا کے مجمع میں بیان کیا کہ مرزاقادیانی نے سیالکوٹ کی نوکری کے زمانہ میں رشوت ستانی سے خوب ہاتھ رنگے اور یہ سیالکوٹ ہی کی ناجائز کمائی تھی۔ جس سے مرزاقادیانی نے چار ہزار روپے کا زیور اپنی دوسری بیوی کو بنوا کر دیا۔ 
(روئیداد مناظرہ روپڑ مطبوعہ کشن سٹیم پریس جالندھر شہر ص۳۵)
	سیالکوٹ ملازمت کے دوران مرزاقادیانی نے خیر سے چند انگریزی کتب کی تعلیم حاصل کی اور مختاری کا امتحان دیا۔
مختاری کے امتحان میں فیل
	’’آپ مختاری کے امتحان میں فیل ہو گئے۔ اسی روایت میں ص۱۵۵ پر ہے کہ پادری بٹلر سے مرزاقادیانی کا مباحثہ ہوتا رہا۔ اس سے شناسائی کے مطابق وہ پادری ولایت جانے لگے تو مرزاقادیانی سے کچہری میں ملنے آئے۔ اس روایت کے الفاظ یہ ہیں۔ ’’چنانچہ جب پادری صاحب ولایت جانے لگے تو مرزاقادیانی کی ملاقات کے لئے کچہری تشریف لائے۔ ڈپٹی کمشنر صاحب نے پادری صاحب سے تشریف آوری کا سبب پوچھا تو پادری صاحب نے جواب دیا کہ میں مرزاصاحب سے ملاقات کرنے کو آیا تھا۔ چونکہ میں وطن جانے والا ہوں۔ اس واسطے ان سے آخری ملاقات کروں گا۔ چنانچہ جہاں مرزاقادیانی بیٹھے تھے وہیں چلے گئے اور فرش پر بیٹھے رہے اور ملاقات کر کے چلے گئے۔‘‘ 		     (سیرۃ المہدی حصہ اوّل ص۱۵۶، روایت نمبر۱۵۰)
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
Flag Counter