کا جواب نہیں آتا، ورنہ حقیقت وہی ہے جو اوپر واضح کردی گئی ہے۔ بھلا دین وایمان اور جھوٹ میں کیا رابطہ ہے۔ ایمان اور دجل وفریب کا کیا جوڑ ہے؟
اس حقیقت کو واضح کرنے کے لئے ذیل میں صرف دس وہ اصول اور ضابطے پیش کئے جاتے ہیں جو کہ خود مرزاقادیانی کی ذاتی کتب اور تحریرات سے لئے گئے ہیں۔ پھر ان اصولوں پر مرزا کی سیرت، شخصیت اور کردار کو پرکھا گیا ہے کہ مرزا کسی بھی قسم کے شرف وفضل یا اکرام واعزاز کا مستحق یا کسی بھی سطح پر قابل ذکر اورتوجہ نہیں ہے۔ بلکہ وہ تو ہر منفی وصف کا منبع ومرکز اور پلندہ تھا۔ حتیٰ کہ وہ تو ایک شریف انسان بھی ثابت نہیں کیا جاسکتا۔ چہ جائیکہ اسے کسی بھی اعزاز یا منصب وعہدہ کا مستحق قرار دیا جائے۔
اب ذیل میں وہ اصول وضوابط اور ان پر شخصیت مرزا کی فٹنگ ملاحظہ فرمائیے۔
مرزا قادیانیت کی اصلی پوزیشن (شرافت یا رذالت؟)
مرزاقادیانی خود بھی اور اس کے چیلے چانٹے مرزا کے کئی کمالات بیان کرتے رہتے ہیں۔ مگر جب ہم اہل حق ان کے ساتھ بحث مباحثہ میں مرزا کے کردار پر بحث کا عنوان پیش کرتے ہیں تو کوئی بھی مرزائی اس پر بحث کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتا۔ حالانکہ کسی شخصیت کے دعویٰ اور تعلیمات کی صحت وعدم صحت معلوم کرنے کے لئے اس کے ذاتی کردار پر بحث ازحد ضروری اور مفید ہوتی ہے۔ خود رب العالمین نے اپنے حبیب کریم خاتم الانبیائﷺ کی حقانیت کے اثبات میں یوں ارشاد فرمایا ہے۔ ’’فقد لبشت فیکم عمرا من قبلی افلا تعقلون (یونس:۱۶)‘‘ {(اعلان نبوت) بلاشبہ میں تم میں اس دعویٰ رسالت سے پیشتر عمر کا کافی حصہ (جالیس برس) گزار چکا ہوں۔ کیا تم نے کبھی مجھے جھوٹ بولتے یا وعدہ خلافی کرتے دیکھا یا سنا ہے؟ (یہ کبھی نہیں ہوا تو سوچ لو کہ میرا دعویٰ نبوت کتنا صحیح اور مبنی برحقیقت ہے)}
اسی طرح حدیث پاک میں بھی مذکور ہے کہ جب آپؐ نے کفار مکہ کے سامنے دعوت حق پیش کرنے کا ارادہ فرمایا تو کوہ صفا پر کھڑے ہوکر سب کو بلاکر اکٹھا فرمایا اور پھر فرمایا ’’ھل وجد تمونی صادقاً او کاذباً‘‘ کہ کیا تم نے مجھے آج سے قبل ہر بات ومعاملہ میں سچا پایا ہے یا اس کے خلاف غلط بیانی سے کام لینے والا پایا ہے؟ تو سب نے بیک زبان ہوکر پکارا کہ ’’ماجربنا علیک الا صدقا‘‘ (بخاری ج۲ ص۷۰۲، باب وانذر لمشیرنک المقربین) کہ ہم نے ہر موقعہ پر آپ کو راست باز اور سچا ہی پایا ہے۔ اس کے بعد آپؐ نے ان کے سامنے اعلان حق فرمایا۔
مگر ان حقائق کے برعکس قادیانیت کا معاملہ بالکل الٹ ہے۔ مرزاقادیانی کا ذاتی کردار ہر پہلو سے داغ دار اور منفی ہے۔ انسانیت کے خصائل وصفات سے بالکل عاری ہے۔ حتیٰ کہ خود مرزاقادیانی کی تحریرات سے واضح طور پر اس کا منفی کردار اظہر من الشمس ہے۔ ذیل میں اس حقیقت پر شواہد پیش خدمت ہیں۔ ان کو بغور مطالعہ فرماکر بائی قادیانیت کی صحیح پوزیشن اور کردار معلوم کر لیں کہ وہ تو ایک شریف انسان بھی ثابت نہیں ہوتا۔ چہ جائیکہ وہ کسی روحانی عہدے پر فائز ہو۔
۱… مرزاقادیانی کی اپنی پوزیشن کے متعلق وضاحت
لکھتے ہیں کہ: