Deobandi Books

احتساب قادیانیت جلد 24 ۔ غیر موافق للمطبوع - یونیکوڈ

5 - 527
۱۸…	مرزاقادیانی کے بائیس(22) جھوٹ		۶۶۹


حقیقت مرزائیت
	کذب وافترائ، دجل وفریب، حماقت وجہالت (۱۰قادیانی اصولوں کی روشنی میں) ضلع گورداسپور تحصیل بٹالہ کے ایک گاؤں قادیان میں غداران ملت وملک کا ایک قدیم خاندان رہائش پذیر تھا۔ جس کا سربراہ مرزا غلام مرتضیٰ تھا۔ اس خاندان نے جہاں جنگ آزادی ۱۸۵۷ء کے دوران اپنے آقا انگریز کا حق نمک ادا کرتے ہوئے مجاہدین وطن وملت کے خون سے خوب ہاتھ رنگے۔ ہاں اس کے آئندہ اخلاف بھی اسی ڈگر پر چلنے کا عزم لے کر دنیا میں وجود پذیر ہوتے چلے آئے ہیں۔ اسی غدار ملت کے گھر ۱۸۳۹ئ،۱۹۴۰ء کے دوران ایک فرزند تولد ہوا۔ جس کا نام مرزا غلام احمد تھا۔ یہ فرزند ابتدائی عمر میں کسی نمایاں پوزیشن کا مالک نہ تھا۔ اس کے باپ نے خود اور چند دیگر افراد کے ذریعے اس کی ادھوری سی تعلیم وتربیت کا بندوبست بھی کیا۔ آخر یہ عالم شباب (۲۵سال کی عمر میں) ایک شرمناک حرکت کی وجہ سے گھر سے بھاگ کر سیالکوٹ کچہری میں معمولی سی تنخواہ مبلغ ۱۰روپیہ پر ۴سال تک تعینات رہا۔ پھر وہاں سے اگلے مرحلہ کے لئے ایک خاص مقصد کے تحت گھر واپس آگیا اور مختلف اہل مذاہب کے ساتھ بحث ومباحثہ شروع کردیا۔ جس میں ہمیشہ ناکام ہی رہا۔ آخر پلان کے مطابق ۱۸۸۰ء کے لگ بھگ براہین احمدیہ نامی ایک کتاب حمایت اسلام کے سلسلہ میں شائع کرنے کے لئے اشتہار بازی شروع کردی۔ جس پر اس کی حرص زراندوزی کی خوب آبیاری ہوئی۔ اس کے بعد ۱۸۸۹ء میں مہدویت اور مجددیت کا دعویٰ کر کے بیعت کا سلسلہ شروع کردیا اور دو سال بعد ۱۸۹۱ء میں مثیل مسیح اور پھر مسیح موعود کا دعویٰ داغ دیا اور مختلف قسم کے الہامات اور پیش گوئیاں شائع کرنا شروع کر دیں۔ ساتھ ساتھ مختلف تصانیف بھی لکھیں جن میں دعویٰ مسیحیت، نبوت بھی کردیا۔ نیز قرآن وحدیث میں غلو وتحریف کا بھی بازار گرم کردیا۔ توہین انبیاء وصلحاء کا محاذ بھی کھول دیا۔ جس کے رد عمل میں علمائے حقانی نے اس کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور اس کے ہر دعویٰ اور تحریف وتسویل کا تار پور بکھیر دیا۔ تمام مکاتب فکر کے جمیع علماء نے اس پر فتویٰ کفر لگادیا۔ جس سے بوکھلا کر یہ دجال نہایت گندی ذہنیت پر اتر آیا۔ اس کے بعد اس نے ۱۹۰۱ء میں دعویٰ نبوت کردیا اور نہایت زور شور سے اپنے کفر والحاد کی اشاعت میں مصروف رہا۔ ادھر علمائے حق نے بھی اس کا ناک میں دم کردیا۔ چنانچہ اسے کبھی بھی آمنے سامنے بحث ومناظرہ کی جرأت نہ ہوسکی۔ محض اپنے گھر بیٹھ کر ہی ہرزہ سرائی کرتا رہتا۔ متعدد مناظرے بھی کئے، مگر سب تحریری تھے۔ تقریری ایک بھی نہ کرسکا۔ بالآخر اسی گہماگہمی میں ۲۶؍مئی۱۹۰۸ء کو نہایت ہی ذلت آمیز اور عبرتناک موت مر کر واصل جہنم ہوا۔ اس نے پچاس کتب اور تین صد اشتہارات اپنا ملحدانہ ترکہ چھوڑا۔ جن میں ہر قسم کا کذب وافترائ، مکرو فریب، جہالت وحماقت بھری ہوئی ہے۔ کوئی صحیح اور معقول بات ہر گز نہیں ہے۔ کیونکہ یہ بقول خود خدا کا فرستادہ نہیں بلکہ ملکہ برطانیہ کے زیر اثر مبعوث ہوا تھا۔ انگریز کا ہی لگایا ہوا پودا تھا۔ یہ حقیقت سو فیصد صحیح اور درست ہے کہ اسے اور اس کے پیروکاروں کو خدا، رسولؐ اور دین ومذہب سے رتی برابر واسطہ نہیں ہے۔ یہ محض ایک تخریبی صیہونیت اور استعاریت کا آلہ کار گروہ ہے۔ ان کے قلوب واذھان میں خدا رسول اور دین ومذہب کا رتی برابر تقدس یا عقیدت نہیں ہے۔ یہ لوگ چند مذہبی مباحث کو محض آڑ بنا کر اپنے اغراض ومقاصد کی تکمیل میں مصروف رہتے ہیں اور ہم بھی محض اس لئے ان کے ساتھ مذہبی مباحثہ کرتے ہیں تاکہ عوام الناس میں یہ تأثر پیدا نہ ہوسکے کہ ہمارے علماء کو ان کے مسائل 
Flag Counter