Deobandi Books

احتساب قادیانیت جلد 23 ۔ غیر موافق للمطبوع - یونیکوڈ

56 - 463
	’’مارمیت اذرمیت ولکن اﷲ مارمیٔ‘‘ 
(ضمیمہ تحفہ گولڑویہ ص۲۱ حاشیہ، خزائن ج۱۷ ص۶۸)
	’’یصنع الفلک باعیننا ووحینا‘‘   (دافع البلاء ص۶ حاشیہ، خزائن ج۱۸ ص۲۲۶)
	’’کذالک مننا علیٰ یوسف لنصرف عنہ السوء والفحشائ‘‘ 
(دافع البلاء ص۸ حاشیہ، خزائن ج۱۸ ص۲۲۸)
	’’ان الذین یبایعونک انما یبایعون اﷲ ید اﷲ فوق ایدیہم‘‘ 
(دافع البلاء ص۶، خزائن ج۱۸ ص۲۲۶)
مکرر نزول کی تفسیر
	عجب ثم العجب! مرزاقادیانی آنجہانی کی جدت طرازیاں دیکھ کر پرستار توحید کا زہرہ آب آب ہوتا ہے کہ مولا کریم جس کے خزانوں میں کسی چیز کی کمی نہیں اور جو مختار کل وقادر وتوانا ہے اور جس کی باتیں اگر تمام دنیا کے درخت قلم او دریا سیاہی بناکر بھی رقم کی جائیں تو یہ ذخیرہ ختم ہونے پر بھی نہ ختم ہوں اور جس نے دنیا کی ہدایت وفلاح کے لئے ایک ایسی بے نظیر وجامع کتاب آسان ترین لفظوں میںکامل واکمل رسول اکرمﷺ کی وساطت سے بھیجی۔ جسے نور کے القاب سے یاد کیا اور بار بار فرمایا کہ تم کفر کی سیاہ تاریکیوں میں بے دست وپاکور باطنی میں پڑے تھے۔ ہم نے احسان کیا کہ سراج المنیر کو اپنے خاص فضل واحسان سے لطف وبخشش کے لباس میں عفووکرم کی تصویر میں رحم وحلم کے قالب میں مبعوث فرمایا کہ تم کو تاریک اندھیروں سے نکال کر شاہراہ ترقی پر گامزن کردے۔ رسول اکرمﷺ نے تم وحشیوں کو جو گمراہی کے گڑھوں میں گرے ہوئے تھے اپنے پر تو سے منور کیا اور عبودیت کے فرائض سے شناسا کرا کر آپس میں بھائی بھائی بنادیا۔ حالانکہ تم ایک دوسرے کے جانی دشمن اور خون کے پیاسے تھے۔ اب سوال یہ ہے کہ خلاّق جہاں بھی اپنے لئے نور کا مبارک نام پسند کرے اور قرآن ناطق کو بھی نور ہی قرار دے اور قرآن صامت کو بھی نور کے نام سے ہی منسوب کرے۔ ان تین نوروں کے ہوتے ہوئے یعنی خدا بھی نور، محمد مصطفیٰ بھی نور، قرآن پاک بھی نور، اور محمد مصطفیٰ کے لئے سراج المنیر سے تشبیہہ یعنی چمکتا ہوا سورج، اﷲ اﷲ مہرتاباں کے سامنے اب کوئی بے وقوف اور خدائی خوار آج اگر ایک مٹی کا ناپاک دیا۔ جس میں عجلت کا تیل پڑا ہو جلا کر یہ کہے کہ اس کی روشنی سورج سے بدرجہا بہتر ہے اور یہ تمام جہاں کے منور کرنے کو کافی ہے اور دلیل یہ ہے کہ روشنی اسی سورج کی عنایت ہے تو اسے وہ کون سا لال بجھکڑ اور عقل کا اندھا اور پھوٹی قسمت اور جلے نصیب کا مالک ہے جو قبول کرے گا۔
	قرآن کریم کا مکرر نزول تو ہوا مگر اﷲ میاں کے خزانے میں خاکم بدہن، مرزا کے نام کی کیا کمی تھی۔ جس طرح پر عام انبیاء علیہ السلام کے الہام چرائے گئے اور اپنے لئے تفویض بھی خود ہی کر لئے گئے کیا اچھا ہوتا کہ ان میں بجائے ابراہیم کے غلام احمد یا صرف مرزاہی اطلاق کر لیا جاتا۔ مگر ایسا نہیں ہوا، کیا اﷲ تعالیٰ دنیا کو ایسے لغو استعاروں میں ڈال کر گمراہی کے مہیب گڑھوں میں بذات فی نفسہ دکھیلنا چاہتا ہے۔ یہ تو سنت اﷲ نہیں اور سیرت خیر الانامؐ اس کے منافی ہے اور پرزور تردید کرتی ہے۔ حیرانگی ہوتی ہے کہ آج سے چوداں سو برس پیشتر واتخذ ومن مقام ابراہیم 
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 بسم اﷲ الرحمن الرحیم! 1 1
Flag Counter