Deobandi Books

احتساب قادیانیت جلد 23 ۔ غیر موافق للمطبوع - یونیکوڈ

49 - 463
عمل کرنے والے صابرہ ماں کے لال جنت کے مہماں ہوئے اب تو وہ ہیں جنہیں اتالیق کے لئے ولایت کی حسینہ چاہییٔ اور چلنے کو موٹر اور رہنے کو اچھے اچھے محل اور کھانے کو مرغن غذائیں اور آرام کے لئے نرم بسترے وغیرہ کسی نے کیا خوب کہا ہے   ؎
حرم والوں سے کیا نسبت بھلا اس قادیانی کو
وہاں قرآن اترا ہے یہاں انگریز اترے ہیں
حسن عقیدت کے غلام
اے مرید حق تجھے اذکار اور اشغال میں
سنت خیر الوریٰ کی پاسداری چاہییٔ
	امت مرزائیہ ہمیشہ بال کی کھال اتارنے میں مشہور ہے اور بات بات پر دھوکہ دینا فرض سمجھتی ہے اور کوئی عبارت جس کے معنی سے واقعات کو دور کا بھی واسطہ نہ ہو۔ بلکہ کھلے کھلے الفاظ میں وہ روز روشن کی طرح بزور تردید کرتے ہوں تو یہ مرزائیت کے پروانے حسن عقیدت کی وجہ سے اس کو کشاں کشاں استعارہ کے رنگ میں لے جاتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ کوئی منچلا گورو کا لال (جہاد فی سبیل اﷲ) فریضۂ حج، دین کو دنیا پر مقدم رکھنا تین امور کو استعارہ کے رنگ میں نہ پیش کردے۔ کیونکہ وہ اس فن میں کامل مانے جاتے ہیں اور کیوں نہ ہوں۔ جب کہ کرشن قادیانی نے اس میں بھی کمال ہی کردکھلایا ہے۔ بلکہ یہودیوں کے فن تحریف میں خاص کر ملکہ کے ریکارڈ کو بھی مات ہی کردیا ہے۔ حدیث شریف میں جہاں مسیح موعود کے نشانات میں کرعہ بستی کا نام آیا تو مرزاقادیانی کو فکر دامن گیر ہوئی۔ مگر استعار خانے میں اس کی کیا کمی تھی۔ جھٹ کرعہ سے قادیان بنادیا گیا۔ ایسا ہی کلام مجید کی وہ آیت جو آقائے کون ومکاںﷺ کو شب معراج میں مشیت ایزدی سے مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ کا سیر کراتی ہے۔ ’’سبحن الذی اسریٰ بعبدہ لیلاً من المسجد الحرام الیٰ المسجد الاقصیٰ الذی بارکنا حولہ  لنریہ من ایتنا انہ ہو السمیع البصیر (بنی اسرائیل:۱)‘‘ کا خیال ہوا اور بروز کی سوجھی تو جھٹ یہ آیت اپنے اوپر چسپاں کر لی کوئی زور تھوڑا ہی لگتا تھا۔ مگر اب تاویل بھی ملاحظہ ہو مسجد حرام گھر کی چاریواری کی مسجد بنا لی گئی اور ایک مسجد کا نام مسجد اقصیٰ رکھ لیاگیا۔ مگر سوال تو یہ ہے کہ مسجدوں کے نام پر نام رکھ لینے سے معراج کا درجہ حاصل ہوگیا؟ مگر افسوس اس میں ایک سقم پھر بھی جلدی میں رہ گیا وہ یہ ہے کہ آپ یہ نہ بتلا سکے کہ یہ سعید رات کا حصہ کب اور کس ماہ میں میسر ہوا اور آپ نے کیا کیا چیزیں مشاہدہ کیں اور پھر اس کا کیا ثبوت ہے؟ اور یہی تو ایک چیز شب معراج کی امتیازی تھی کہ تھوڑے سے حصہ رات میں ایک ماہ کی مسافت کا طے کرنا اور مسجد اقصیٰ کا استفسار کرنے پر تسلی بخش جواب دینا۔ بلکہ یہاں تک ہوا کہ معترضین کے سامنے صحیح نقشہ کھینچ دیا اور ان کے قافلے جو بغرض تجارت شام کو گئے تھے۔ ان کے پورے پورے پتے بتادئیے۔ ذیل میں قارئین کرام کو بروز کی ماہیت کے لئے چند ایک اور امثلے پیش کرتے ہیں۔
	مثلاً سنت انبیاء علیہم السلام ہمیشہ سے چلی آئی ہے کہ وہ صاحب ہجرت ہوں۔ مگر مرزاقادیانی کو یہ بھی نصیب نہ ہوئی اور انبیاء جہاں فوت ہوئے وہیں دفن ہوئے۔ چنانچہ فخر دوعالمﷺ کی ہجرت مشہور جہاں ہے اور ایسا ہی ان کی وفات حجرہ عائشہ صدیقہ میں ہوئی اور وہیں روضۂ اطہر بنا۔ مگر بروز کو دیکھئے کہ لاہور میں جان نکلی اور قادیان میں دفن ہوئے۔ انبیاء کی وراثت علمی ذخیرے ہوا کرتی ہے۔ چنانچہ جب آقا ومولا کا وقت وصال ہوا تو ام المؤمنین عائشہ 
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 بسم اﷲ الرحمن الرحیم! 1 1
Flag Counter