Deobandi Books

احتساب قادیانیت جلد 23 ۔ غیر موافق للمطبوع - یونیکوڈ

46 - 463
	ہمدردی کی آنکھیں خون کے آنسو روتی ہیں اور محبت سے لبریز دل یاد محبوب میں بلیوں اچھلتا ہوا بے چین وبے قرار ہوتا ہے۔ آہ وہ انیس الغرباء وشفیق امت وہ کلیم پوش وبوریہ نشین نبیﷺ جو مشیت ایزدی سے خاتم النبیین وکافۃ للناس اور رحمت کردگار سے رحمت اللعالمین ہوا اور جس نے اہل عالم کے سامنے اخوت ورحمت کی تصویر عملی رنگ میں کھینچی اور عفووکرم کے دریا بہائے اور علم وعرفان کی بارش کی۔
	رؤف الرحیم آقا کا وہ رؤف الرحیم غلام جب تک رہا۔ مساوات کا علمبردار اور حلم وانکساری کا قاسم رہا۔ آخر رب کعبہ کی مشیت مقتضی ہوئی اور ماہ کامل کی روشنی سے جہان مستفید ہوکر جگمگا اٹھا تو وہ سراج المنیر ابررحمت کی آغوش شفقت میں ڈھانپ لیاگیا۔
	صفحۂ دہر پر اس نیلی فام کے نیچے سب سے پہلا وہ مصدق جو خادم دین ہوا اور جس نے اسلام کے لئے رسول اکرمﷺ کی شان کے لئے اپنا گھر بار راہ مولا میں لٹایا اور مستعمل کپڑوں تک خرچ کر کے درختوں کے پتوں سے تن ڈھانپا گیا اور شراب وحدت سے سرشار ہوکر اسی کا ہورہا اور غار ثور میں رفیق اور ابتلاء ومصیبت کا ساتھی ہوکر صدیقؓ کے لقب سے ملقب ہوا۔ جب مسند خلافت پر حضور آقائے زماںﷺ کا غلام ہوا تو اپنی لخت جگر ام المؤمنین عائشہ صدیقہؓ سے سب سے پہلے جو سوال کیا تھا وہ یہ تھا کہ بیٹی وہ تسلیم ورضا کا نورانی پیکر اور تیرے ایمان کا مالک تیرا پیارا شوہر جو جنت کا دولہا بنا اور جس کے لب مبارک ہمیشہ یہ دعاء فرمایا کرتے ’’اللہم أحیینی مسکینا وأمتنی مسکینا (ابن ماجہ ص۳۰۴، باب مجالسۃ الفقرائ)‘‘ کون سا ایسا خاص عمل فرمایا کرتے جو میرے علم میں نہ ہو تو آپ نے جواب دیا کہ آپﷺ کا یہ معمول تھا کہ صبح حریرہ مجھ سے بنواتے اور دامن کوہ کے شمال کو تشریف لے جاتے۔ بس اس سے زیادہ نہیں جانتی کہ وہ اس کو کیا کرتے۔
	عاشق رسولﷺ کی دوربین نگاہیں حقیقت سے آشنا ہوئیں اور بوڑھے صدیق کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے اور دل وفور محبت سے تڑپ اٹھا تو شوق طلب دامنگیر ہوا۔ حریرہ لیا اور اﷲ کا نام لے کر دامن کوہ کو چل دیا۔ راستہ بھر بنظر عمیق وہ یہ سوچتے جارہے تھے کہ وہ کون سا ایسا خوش نصیب ہے جس کی مہمانی میں آقائے دوجہاںؐ بنفس نفیس ہمیشہ میزبان رہے۔ غرضیکہ جویندہ یابندہ کے مصداق حصول مراد ہوا تو دیکھا تاریک غار ہے اور اس سے ایک خفیف سی کراہنے کی آواز آرہی ہے۔ آپ اندر داخل ہوئے تو ایک نحیف البدن بیمار مشاہدہ کیا جو انتہائی کمزوری کے باعث ہاتھ اٹھانے کی سکت سے بھی معذور تھا۔ وہ گویا ہڈیوں کا ایک مرقع جھلری پڑے گوشت میں ملفوف تھا اور شاید موت کی آرزو میں دن گن کر گزار رہا تھا اور عدم صفائی کے باعث متعفن مادہ سے دماغ پھٹا پڑتا تھا۔ مگر صدیقؓ کے لئے یہ سدراہ نہ ہوسکا۔ آپ نے کمال شفقت ومہربانی سے اس کا سراپنے رانو پررکھا اور حریرہ چمچہ سے اس کے منہ میں گرایا۔
	بیمار نے ایک طویل سردآہ لی اور شدت تکلیف سے کراہ اٹھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وفور غم سے اس کا گلاکٹ گیا۔ تاہم بھڑائی ہوئی آواز سے بولا تم نے ظلم کیا مجھے سخت تکلیف ہوئی۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ دنیائے جہاںؐ سے خدا نے اپنی رحمت کو اٹھالیا۔ کیا رحمت عالمؐ عالم جاودانی کو سدھارے آہ تو میزبانی کو کیا جانے کہ وہ انیس الغرباء جو میزبان جہاں ہوا۔ کس طرح سے نحیفوں کو نوازا کرتا آہ کس منہ سے بتاؤں اور کیسے کہوں کہ وہ محبوب یزدانیﷺ پہلے اس لقمے کو اپنے دہن مبارک سے گداز کرتے اور پھر میرے منہ میں کر ڈال دیتے۔ افسوس اب رہنا بے سود اور جینا بے کار ہوا۔ آہ خدا نے ضعیفوں کا ملجاء چھین لیا۔ ایک سرد آہ کھینچی اور چند سسکیاں لیں اور جان 
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 بسم اﷲ الرحمن الرحیم! 1 1
Flag Counter