Deobandi Books

احتساب قادیانیت جلد 23 ۔ غیر موافق للمطبوع - یونیکوڈ

39 - 463
ڈھانپ لیا تو سایہ چہ معنی دارد اور اگر روحانی طور پر ظل کی ٹرالاپی بھی جائے تو وہ عمل واوصاف چاہتی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیامرزاقادیانی میں وہ اطوار واوصاف پائے جاتے ہیں جو سرکار مدینہﷺ میں تھیں۔ مثلاً جہاد جواعلائے کلمۃ الحق کے لئے مشیت ایزدی سے شہنشاہ عالمﷺ نے بنفس نفیس عملاً کئے اور ان کی تعلیم اور شوق کے بے پناہ جذبہ سے نام لیواؤں کو سرشار کردیا۔ چنانچہ بیت اﷲ کی عظمت کے لئے خود طواف کئے اور امت کے ہر اس فرد کو جو اس کے خرچ کی استطاعت رکھتا ہے حج فرض قرار دے دیا۔ دنیا اور اس کی چاہت کو مردار سے تشبیہ دے کر اس کے تلاش کرنے والے کو کتا صرف اس لئے کہا کہ کہیں دنیا دین پرمقدم نہ کر لی جائے۔ ورنہ تجارت اور اس کے فروغ کے لئے جس قدر شوق آپ نے دلایا اس کی نذیر نہیں۔ یہ حضور ختمی مآبﷺ ہی کے فرمان کا صدقہ تھا۔ جو گنتی کے دنوں میں مٹھی بھر صحابی تمام کاروباری حلقہ کے مالک تھے اور ان کی امارت کا پتہ ان کے صدقات سے چلتا ہے کہ قحط سالی میں عبدالرحمن بن عوفؓ جو آپ کا ایک بے دام غلام تھانے ایک ہزار اونٹ معہ غلہ کے راہ مولا میں اپنے آقا کی خوشنودی کے لئے لٹا دئیے۔ تفصیل اس واقعہ کی یوں ہے۔
	عبدالرحمن بن عوفؓ بیان کرتے ہیں کہ مدینہ منورہ اور اس کے ماحول میں ایک دفعہ خدا کی امانت کے واپس چلے جانے کے بعد از حد قحط پڑا۔ یہاں تک کہ مخلوق خدا بھوک سے بلبلا اٹھی۔ اسی رات میرے آقا ومولا کا خواب میں دیدار ہوا اور یہ ارشاد میرے کانوں نے سنا کہ کون ہے جو راہ مولا میں اہل یثرب کو بھوک کی مصیبت سے نجات دلاکر جنت کی ضمانت ہم سے لے۔ میرا قافلہ جو شام کو بغرض تجارت گیا ہوا تھا۔ اسی صبح واپس آیا جو ایک ہزار اونٹوں پر مشتمل تھا۔ اونٹوں پر گندم کی بوریاں لدی ہوئی تھیں۔ میرے ملازم گندم کو لئے یثربی منڈی میں بغرض فروخت فروکش تھے اور بیوپاریوں کا ہجوم ان کو حلقہ زن کئے ہوئے تھا کہ سالار قافلہ میرے مکان پر مشورہ اور اجازت کے لئے حاضر ہوا اور عرض کیا کہ یاسیدی گندم کے بیوپاری سات گنا منافع پر غلہ لینا چاہتے ہیں بیع اچھی ہے دے دوں یا اور کچھ ارشاد ہے؟ اس کے جواب میں میں نے اسے یہ کہا کہ لینے والا تو اس سے زیادہ نفع دے کر لیتا گیا۔ وہ حیران ہوا کہ بیوپاری تو سبھی آچکے تھے پھر یہ کون لے گیا؟ اور کیا نفع دیا؟ تو ہم نے جواب دیا کہ ستر گنا اور لینے والا وہ محبوب یزدانیﷺ جو جنت کا دولہا بنا اور جس نے دنیائے جہاں کو تجارت سکھلائی۔ سالار آقا کی دریادلی اور رسول اکرمﷺ کی محبت سے ایسی وابستگی کو دیکھ کر عش عش کر اٹھا اور عرض کیا اب میرے لئے کیا ارشاد ہے تو حکم ہوا کہ جاؤ اور تمام راہ مولا میں غرباء میں تقسیم کر دو۔ سالار کا بیان ہے کہ جب میں اس خدمت سے سبکدوش ہوا تو حاضر ہو کر عرض کیا کہ اونٹ کہاں بھیجوں تو ارشاد ہوا کہ اونٹ بھی راہ مولا میں تقسیم کردو۔ سبحان اﷲ اسی رات آقائے جہان نے ایک دوسرے صحابیؓ کو شرف ملاقات بخشا وہ بیان کرتے ہیں کہ عرب وعجم کے مالک نورانی پوشاک پہنے تازی گھوڑے پر سوار جانے کی جلدی میں مصروف تھے میں نے عرض کیا۔ آقا مدت سے دیدار کا پیاسا تھا اور آنکھیں آپﷺ کے رخ انور کو دیکھنے کے لئے ترس رہی تھیں۔ آج ذرہ نوازی ہوئی۔ مگر یہ جلدی کیسی ﷲ چند لمحے آرام فرمائیے تو حضورﷺ نے ہلکا سا تبسم فرماتے ہوئے ارشاد کیا کہ مجھے ایک نہایت ضروری کام پر بہت جلد پہنچنا ہے اس لئے رک نہیں سکتا۔ میں نے عرض کیا مولا وہ ایسا کیا کام ہے تو آپﷺ نے فرمایا کہ عبدالرحمنؓکی سخاوت درگاہ ایزدی میں قبول ہوئی اور اﷲتعالیٰ اس پر راضی ہوا۔ آج جنت میں اس کے نکاح کی تقریب ہے۔ اس لئے مجھے جلدی جانا ہے۔
	حضور ختمی مآبﷺ کے محاسن اور اخلاق حمیدہ اور اوصاف ستودہ شمار ہی نہیں ہوسکتے اور نہ ہی میرا یہ مضمون ہے۔ میں تو اس وقت صرف ظل کی نقاب کو عریاں کرناچاہتا ہوں۔ 
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 بسم اﷲ الرحمن الرحیم! 1 1
Flag Counter