Deobandi Books

احتساب قادیانیت جلد 23 ۔ غیر موافق للمطبوع - یونیکوڈ

30 - 463
کوئی چیز اس سے پوشیدہ نہیں۔ یہاں تک کہ وہ اپنی اس ادنیٰ مخلوق کو جو پتھر اور صدف میں مقید وپنہاں ہے۔ نہیں بھولتا وہ یہ بھی فرماتا ہے کہ ایک انچ کے بودے دماغ اور اوندھی کھوپڑی والے گندے مادے کے ناپاک قطرے کے بنائے ہوئے ذلیل انسان تیری بساط ہی کیا ہے کہ تو کارخانہ الوہیت میںدخل دے سکے تو کیا اور تیری بساط کیا، پھوٹی عقل اور، ذیل دماغ کہاں تک پہنچ سکے گا۔ کیا پدی اور کیا پدی کا شوربا تیرا تحمل اور مادہ برداشت، تیری عقل اور تیرا شعور صرف اتنی سی بات پر کہ مسیح ابن مریم بن باپ کیسے پیدا ہوئے۔ مختل وپراگندہ ہوا۔ حالانکہ ہم نے اپنی صداقت وواحدانیت کے لئے اس کو تمام زمانوں کے لئے ایک نشان اعجاز بنایا اور اس نشان کی بھی کوئی حقیقت ہے۔ جب کہ ہم تمام دنیا کو آن واحد میں برباد اور آباد کرنے پر قادر ہیں۔ چنانچہ ارشاد ہوتا ہے۔ ’’ان یشاء یذہبکم ویأت بخلق جدید۰ وما ذلک علیٰ اﷲ بعزیز (ابراہیم:۱۹،۲۰)‘‘ ایک انسان کا مشیت ایزدی سے بن باپ پیدا کرنا تو کیا بلکہ ہماری قدرت اس بات پر محیط ہے کہ تمام جانداروں کو معہ ان کے لوازمات کے صرف ایک لفظ (کن) کے فرمانے سے ایک لمحہ میں بھسم کردیں اور آن واحد میں تمہاری طرح کی اور مخلوق پیدا کردیں اور ایسا کرنا تمہارے خیال میں محال ہی نہیں۔ غیر ممکن ہے مگر ہمارے لئے آسان تر اور خالق اور مخلوق میں بس یہی فرق ہے۔
	مسیح علیہ السلام کا گود میں تکلم کرنا بھی آیات اﷲ میں سے ہے اور اس میں ایک خاص فضل ربانی تھا اور مصلحت وقت یہی تھی۔ اگر عیسیٰ علیہ السلام ان لوگوں کو جو مریم علیہ السلام پر زبان طعن دراز کرتے تھے اور شدت سے پوچھتے تھے۔ ’’یاخت ہرون ماکان ابوک امراسوء وما کانت امک بغیا (مریم:۲۸)‘‘ جواب نہ دیتے اور مشیت ایزدی اس کی مقتضی نہ ہوتی تو خلاّق جہاں مریم کو یہ تعلیم نہ فرماتا۔
	’’فاما ترین من البشر احد فقولی انی نذرت للرحمٰن صوماً فلن اکلم الیوم انسیا (مریم:۲۶)‘‘ پروردگار عالم کے علم میں تھا کہ جب یہ عفیفہ قانتہ بچے کو لے کر قوم میں آوے گی تو لوگ اچنبہ سے بچے کو گود میں دیکھ کر سوال کریںگے اور مریم کے جواب سے کسی کو تسلی نہ ہوگی۔ بلکہ زبان طعن دراز سے دراز تر ہو جائے گی۔ اس لئے غفور جہاں نے یہ حکمت سکھلائی کہ جب ایسا وقت آئے تو اسی کلمۃ اﷲ کی جانب اشارہ کر دیجیو۔ ’’فاشارت الیہ‘‘ اور جب آپ نے ایسا کیا تو قوم کے لوگ مارے غصے کے آپے سے باہر ہوکر کہنے لگے۔ ’’قالوا کیف نکلم من کان فی المہد صبیا (مریم:۲۹)‘‘ گودی کا بچہ کس طرح ایسے اہم معاملہ پر روشنی ڈال سکے گا۔
	مشیت ایزدی اسی بات پر مقتضی تھی کہ مریم علیہا السلام کی بریت ایسے احسن طریق پرکرائی جائے کہ بدبختوں کے منہ پر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے تالے لگ جائیں اور زچہ کے دامن عصمت پر دھبہ باقی نہ رہے۔ چنانچہ اس سے بہتر اور کون سا طریقہ تھا کہ زچہ کی عصمت مآبی معصوم بچہ سے کرائی جائے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا اور جب مسیح علیہ السلام نے ان سے خطاب کیا کہ ’’قال انی عبداﷲ۰ اتٰنی الکتب وجعلنے نبیاً وجعلنے مبارکاً این ماکنت۰ واوصٰنے بالصلوٰۃ والزکوٰۃ مادمت حیا۰ وابراً بوالدتی ولم یجعلنی جباراً شقیاً (مریم:۳۰تا۳۲)‘‘ 
	تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ محو حیرت ہوگئے اور خدا کی قدرت کا اعجازی نشان سمجھ کر اس عقیدہ سے باز آئے اور ابن مریم اور اس کی والدہ کو آیات اﷲ قرار دے کر چپکے ہورہے۔
	آقائے دوجہاںﷺ کا ارشاد ہے کہ تین بچوں نے ماں کی گود میں تکلم کیا۔ بدبخت نمرود نے خدائی کا دعویٰ کیا اور خدا کے نام لیواؤں پر انتہائی مظالم توڑے۔ یہاں تک کہ جلتے ہوئے تیل میں اہل اﷲ کو صرف اس قصور کے بدلے میں کہ وہ ایک اﷲ کی عبادت کیوں کرتے ہیں ڈالا گیا۔ 
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 بسم اﷲ الرحمن الرحیم! 1 1
Flag Counter