Deobandi Books

احتساب قادیانیت جلد 23 ۔ غیر موافق للمطبوع - یونیکوڈ

25 - 463
مجھ سا مشتاق زمانے میں نہ پاؤ گے کہیں
گرچہ ڈھونڈو گے چراغ رخ زیبا لے کر
حضور گورنمنٹ عالیہ میں ایک عاجزانہ درخواست
	مرزاغلام احمد قادیانی آنجہانی نے مورخہ ۲۷؍ستمبر ۱۸۹۹ء کو ایک درخواست بعنوان مندرجہ بالا لکھی تھی۔ جس کو آپ نے اپنی مایۂ ناز کتاب ’’تریاق القلوب‘‘ کے آخیر میں بطور (ضمیمہ نمبر۳ ص ب، خزائن ج۱۵ ص۴۹۰،۴۹۱) نقل کیا جو حسب ذیل ہے۔ ملاحظہ فرماویں:
	’’میں اس بات کا بھی اقراری ہوں کہ جب کہ بعض پادریوں اور عیسائیوں مشزیوں کی تحریر نہایت سخت ہوگئی اور حد اعتدال سے بڑھ گئی اور بالخصول پرچہ نور افشاں میں جو ایک عیسائی اخبار رلدھیانہ سے نکلتا ہے۔ نہایت گندی تحریریں شائع ہوئیں اور ان مؤلفین نے ہمارے نبیﷺ کی نسبت نعوذ باﷲ ایسے الفاظ استعمال کئے کہ یہ شخص ڈاکو تھا، چور تھا، زناکار اور صدہا پرچوں میںیہ شائع کیا کہ یہ شخص اپنی لڑکی پر… تھا اور بایں ہمہ جھوٹا تھا اور لوٹ مار اور خون کرنا اس کا کام تھا۔ تو مجھے ایسی کتابوں اور اخباروں کے پڑھنے سے یہ اندیشہ دل میں پیدا ہوا کہ مبادا مسلمانوں کے دل پر جو ایک جوش رکھنے والی قوم ہے ان کلمات کا کوئی سخت اشتعال دینے والا اثر پیدا ہو۔ تب میں نے ان جوشوں کو ٹھنڈا کرنے کے لئے اپنی صحیح اور پاک نیت سے یہی مناسب سمجھا کہ اس عام جوش کے دبانے کے لئے حکمت عملی یہی ہے کہ ان تحریرات کا کسی قدر سختی سے جواب دیا جائے تا سریع الغضب انسانوں کے جوش فرد ہو جائیں اور ملک میں کوئی بدامنی پیدا نہ ہو۔ تب میں نے بمقابل ایسی کتابوں کے جن میں کمال سختی سے بدزبانی کی گئی تھی۔ چند ایسی کتابیں لکھیں جن میں کسی قدر بالمقابل سختی تھی۔ کیونکہ میرے کانشنس نے قطعی طور پر مجھے فتویٰ دیا کہ اسلام میں بہت سے وحشیانہ جوش والے آدمی موجود ہیں۔ ان کی غیض وغضب کی آگ بجھانے کے لئے یہ طریق کافی ہوگا۔ کیونکہ عوض ومعاوضہ کے بعد کوئی گلہ باقی نہیں رہتا۔ سو یہ میری پیش بینی کی تدبیر صحیح نکلی اور ان کتابوں کا یہ اثر ہوا کہ ہزارہا مسلمان جو پادری عماد الدین وغیرہ لوگوں کی تیز اور گندی تحریروں سے اشتعال میں آچکے تھے۔ یک دفعہ ان کے اشتعال فرو ہوگئے۔ کیونکہ انسان کی یہ عادت ہے کہ جب سخت الفاظ کے مقابل پر اس کا عوض دیکھ لیتا ہے تو اس کا وہ جوش نہیں رہتا۔ بایں ہمہ میری تحریر پادریوں کے مقابل پر بہت نرم تھی۔ گویا کچھ بھی نسبت نہ تھی۔ ہماری محسن گورنمنٹ خوب سمجھتی ہے کہ مسلمان سے یہ ہرگز نہیں ہوسکتا کہ اگر کوئی پادری ہمارے رسول اﷲﷺ کو گالی دے تو ایک مسلمان اس کے عوض میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو گالی دے۔ کیونکہ مسلمانوں کے دلوں میں دودھ کے ساتھ ہی یہ اثر پہنچایا گیا ہے کہ وہ جیسا کہ اپنے نبیﷺ سے محبت رکھتے ہیں ویسا ہی وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے محبت رکھتے ہیں تو کسی مسلمان کا یہ حوصلہ ہی نہیں کہ تیز زبانی کو اسی حد تک پہنچائے۔ جس حد تک ایک متعصب عیسائی پہنچا سکتا ہے اور مسلمانوں میں یہ ایک عمدہ سیرت ہے جو فخر کرنے کے لائق ہے۔ وہ تمام نبیوں کو جو آنحضرتﷺ سے پہلے ہو چکے ہیں۔ ایک عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور حضرت مسیح علیہ السلام سے بعض وجوہ سے ایک خاص محبت رکھتے ہیں جس کی تفسیر کے لئے اس جگہ پر موقعہ نہیں۔ سو مجھ سے پادریوں کے مقابل جو کچھ وقوع میں آیا ہے کہ حکمت عملی سے بعض وحشی مسلمانوں کو خوش کیاگیا ہے اور میں دعویٰ سے کہتا ہوں کہ میں تمام مسلمانوں میں سے اوّل درجہ کا خیر خواہ گورنمنٹ انگریزی کا ہوں۔ (چشم بدور خالد) کیونکہ 
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 بسم اﷲ الرحمن الرحیم! 1 1
Flag Counter