Deobandi Books

احتساب قادیانیت جلد 22 ۔ غیر موافق للمطبوع - یونیکوڈ

7 - 342
کھولنے کا حکم دیا اور جب معصوم بچہ انگوٹھا چوستے ہوئے دیکھا تو دفعتاً نجومی کی پیش گوئی کا خیال آیا کہ شاید یہ وہی بچہ ہے جو میری سلطنت کو الٹ کر تاج وتخت کا مالک بن جائے گا۔ یہ خیال ابھی یقین کے مراتب تک نہ پہنچا تھا اور تصور نے ابھی خیالی تصور کو تمام نہ کیا تھا کہ فرعون بوکھلا اٹھا اور موسیٰ کے قتل کا حکم دیا۔ مگر وہ نیک دل خاتون بی بی آسیہ جو اس وقت کی رانی تھی۔آڑے آئی اور زندگی کا باعث بنی، تو پرورش کے لئے اچھی اچھی دایا تلاش ہونے لگیں۔ کیونکہ فرعون لا ولد تھا اور اسی بچہ کو متبنیٰ قرار دیاگیا۔ مصر بھر کی تمام دایاں آئیں اور دودھ پلانے میں ناکام پلٹیں۔ بچہ ہے کہ کسی کا دودھ ہی نہیں پیتا اور بالآخر اس طریق سے اﷲ نے اپنے وعدے کو سچ فرماتے ہوئے ماں کی گود میں پہنچا کر آنکھوں کی ٹھنڈک بنایا۔ اس کے بعد اس کی جوانی اور پاک دامنی کا دل میں مطالعہ کرتا رہا۔ کبھی خیال کرتا کہ وہ راست باز خدا کا رسول ہے۔ کبھی کہتا نہیں نہیں۔ یہ ہر گز نہیں ہوسکتا۔ وہ بہت بڑا جادوگر ہے۔ کبھی موسیٰ کا عصا اژدھا بنا ہوا آنکھوں میں پھر جاتا تو کبھی ہاتھ کی نورانیت چاند کوخجل کرتی معلوم ہوتی۔ غرضیکہ اسی تگ ودو میں وہ گھنٹوں مقید رہا اور برابر کم بختی سر پر سوار رہی۔ جس نے اطیعو اﷲ ورسولہ کے نزدیک آنے سے یہ وسوسہ پیدا کرتے ہوئے روکے رکھا کہ تم خدا ہو اور یہ دنیا خود بخود تمہارے لئے ہی پیدا ہوئی ہے۔ اگر موسیٰ کو سچا رسول مانو گے تو دنیا والے تم سے تمسخر کریںگے۔ غرضیکہ انہیں خیالات میں ایسا الجھا کہ گھوڑے کی لگام تھامنا یا نیک وبد میں تمیز کرنا مشکل ہوگیا۔ انہیں توہمات کے ہیجان میں گھوڑے کو ایڑ لگائی۔ مصاحبوں نے تقلید کی اور فوجوں نے پیروی کی۔ چند منٹوں میں یہ تمام اعداﷲ دریائے نیل کی انہیں محرابی سڑکوں میں تھے۔ ادھر موسیٰ علیہ السلام بھی حکم کے منتظر عصاء لئے کھڑے تھے کہ وحی الٰہی ہوئی۔ ’’فاضرب بعصاک البحر‘‘ بس جونہی ارشاد ربانی کی تعمیل ہوئی۔ پانی کے وہ بے پناہ پہاڑ جو سروں پر حکمت الٰہی سے چل رہے تھے۔ سطح پر ٹوٹ پڑے اور تمام فرعونیوں کو غرق کردیا۔ اس کے بعد بنی اسرائیل پر انعامات کی بارش وقتاً فوقتاً ہوتی رہی اور سچ تو یہ ہے کہ جس قدر اس قوم کو نوازا گیا اس کی مثال قرون ماضی میں ڈھونڈے سے نہیں ملتی۔ چنانچہ ارشاد ہوتا ہے ’’فاخرجناہم من جناتٍ وعیون وکنوزٍ ومقامٍ کریم کذالک واورثنہا بنی اسرائیل (شعرائ:۵۷ تا۵۹)‘‘
	ہم نے فرعونیوں کو ان کے باغات، چشموں اور خزانوں اور اچھے اچھے مقاموں سے خارج کردیا اور ان کی تمام جگہوں پر بنی اسرائیل کو وارث بنادیا۔ مگر افسوس یہ قوم انتہائی پستی سے نکل کر بلندی کے مراتب تک تو پہنچی۔ مگر عادات واطوار نہ سلجھے وہ لا علمی وکم سمجھی سے طرح طرح کے جہالت کے سوال موسیٰ علیہ السلام پر کرتے اور خوارق کے عجائبات کا تقاضہ کرتے مثلاً وہ کہتے کہ اے موسیٰ ہم پر آسمان سے پکا پکایا کھانا اتار، چنانچہ قرآن شاہد ہے کہ ان کی یہ آرزو بھی پوری ہوئی۔ ’’وانزلنا الیکم المن والسلویٰ (بقرہ:۵۷)‘‘ اور طرفہ یہ کہ ایسے کھلے کھلے نشانات دیکھنے کے بعد پھر وہ صراط مستقیم سے بھٹک جاتے۔ گویا غیرت الٰہی کو چیلنج کرتے۔ پھر کوئی تنبیہ آتی۔ جس سے وہ اپنی عافیت تنگ دیکھتے تو کہتے۔ اے جادوگر اپنے خدا سے دعا کر کہ یہ عذاب ہم سے ٹل جائے تاکہ ہم تم پر ایمان لاویں اور جب خدا کا رسول دعا کرتا اور وہ عذاب ٹل جاتا تو پھر وہ کفر کرتے۔ غرضیکہ یہ مدوجزر یونہی چلتا رہا۔ آپ تورات لینے گئے۔ قوم سامری کے دام میں آکر گوسالہ پرست ہوگئی۔ حضرت ہارون نے بہتیری کوشش کی مگر ناکام رہے۔ اﷲتعالیٰ نے فتح کا وعدہ دیا قوم نے ساتھ دینے سے انکار کیا اور کہا ’’قالوا یٰموسیٰ انا لن ندخلہا ابدا مادامو فیہا فاذھب انت وربک فقاتلا انا ھٰہنا قاعدون (مائدہ:۲۴)‘‘ سچ ہے جس کو اﷲ ہدایت دے۔ وہی سیدھا راستہ پاسکتا ہے۔ ’’ومن یہد اﷲ فہو المھتد (بنی اسرائیل:۹۷)‘‘ قرون ماضی میں حضرت نوح علیہ السلام کی وہ لمبی زندگی یعنی ساڑھے تیراں سو برس اور اس میں ان کی وہ ان تھک تبلیغی دوڑدھوپ جو برابر ساڑھے نو سو برس تک رہی کا مطالعہ کرو اور پھر نتیجہ میں فرقان حمید کو دیکھو ’’وما امن معہ الا قلیل 
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 بسم اﷲ الرحمن الرحیم! 1 1
Flag Counter