Deobandi Books

احتساب قادیانیت جلد 22 ۔ غیر موافق للمطبوع - یونیکوڈ

6 - 342
	دنیا اپنی بے ثباتی پر ہمیشہ روئی اور روتی رہے گی۔ حوادث زمانہ نے سینکڑوں جابر ومتکبر انسانوں کے بل نکال کر رکھ دئیے۔ بہتیرے سر پھرے اس نیلی چھت کے نیچے شداد، نمرود، ہامان وفرعون ہوکر خدا کہلوائے اور عاجز وبے کس بندے ان کے جو روستم، ظلم وبربریت کاشکار ہوکر تختۂ مشق بنے۔ آہ! ان کے نوزائیدہ معصوم وبے گناہ بچوں کو صرف اس جرم کے بدلے کہ وہ سبطی قوم میں کیوں پیدا ہوئے۔ بے دریغ قتل عام کیا جاتا۔ اس وحشیانہ طریق کار کا شکار ایک دو نہیں دس بیس نہیں نوے ہزار سے زائد خدا کی وہ ننھی ننھی مخلوق، ماں کی گودوں اور زچہ کی چھاتیوں سے جبراً وقہراً چھین چھین کر جدا کی جاتی اور ندیدی شمشیروں کی پیاس بجھاتی۔ مامتا کی ماری ماں جب آغوش شفقت کو خالی پاتی تو جگر میں ایک بے پناہ درد اٹھتا اور دل خون ہوکر رہ جاتا۔ وہ گھنٹوں تصویر درد ساکت وصامت کلیجہ تھام کر بیٹھی آہیں سرد بھرتی اور دکھڑا روتی رہتی۔ اس جگر دوزی وجان سوزی کے باعث عرش عظیم تھرا اٹھا اور رحمت کردگار جوش میں آئی۔ ملائکۃ اﷲ نے فلسفۂ عالم کا حیرت سے مطالعہ کیا۔ تو کم مائیگی فرعون کی بے بضاعتی پہ خندہ زن ہوئی اور نامرادی کھل کھلا کر ہنسی۔ رحمانیت موسیٰ علیہ السلام کے لباس میں تشریف فرما ہوکر بنی اسرائیل کی نجات کا باعث بنی۔ اتمام حجت کے لئے بیسوں آیات اﷲ معرض ظہور میں آئیں۔ مگر فرعونیت انہیں کب خاطر میں لانے والی تھی نہ ماننا تھا نہ مانا۔ بلکہ ٹھٹھا اور استہزاء کرتے ہوئے نہایت حقارت سے ٹھکراتے ہوئے کہہ دیا گیا۔ ’’قال ان رسول لکم الذی ارسل الیکم لمجنون (الشعرائ:۲۷)‘‘
	حجۃ اﷲ پوری ہوچکی تو فرمان ایزدی ہوا۔ اے موسیٰ! میرے بندوں کو راتوں رات نیل سے پار لے جا۔ ارشاد باری کی تعمیل ہوئی تو سمندر سدراہ ہوا اور عقب میں فرعونی ٹڈی دل لشکرسازوسامان سے لیس بڑے کروفرسے بھوکے شیر کی طرح شکار کے تعاقب میں آرہا تھا۔جونہی یہ لشکر قریب ہوا اسرائیلوں کے ہوش گم اور اوسان خطا ہوئے اور وہ بے ساختہ پکار اٹھے ’’انا لمدرکون (الشعرائ:۶۱)‘‘ موسیٰ علیہ السلام نے تسلی تشفی دیتے ہوئے فرمایا ’’قال کلا ان معی ربی سیھدین (الشعرائ:۶۲)‘‘ مگر چونکہ تمام ظاہری اسباب مفقود تھے۔ اس لئے جان جوکھوں میں پڑ رہی تھی۔ مگر وہ کوہ وقار وپیکر عزم وحی الٰہی پر کامل ایمان رکھتا تھا۔ لیکن نہ جانتا تھا کہ نجات کس طریق سے ہوگی۔ چونکہ راسخ الایمان تھا اس لئے اسے حق الیقین تھا کہ پروردگار عالم ضرور کوئی سبیل نکالے گا۔ جونہی یہ طاغوتی سیل قریب آیا۔ ارشاد ہوا اے کلیم اپنا اعجازی عصانیل میں ڈال دے۔ اﷲ اﷲ وہ لہریں اور موجیں مارتا ہوا سمندر جس میں جہاز رانی کرنے سے ملاح بھی عاجز وخائف ہوتے ہیں کس طرح تعمیل ربانی کرتا ہوا بارہ صاف وشفاف سڑکوں میں بٹ جاتا ہے۔ اب نقشہ یوں سمجھئے کہ گویا پہاڑوں میں سرنگیں بچھیں ہیں، پانی کی دیواریں اور چھت ہیں جو حرکت میں ہیں اور بنی اسرائیل جو بارہ قبائل میں منقسم ہیں ان میں بلاخوف وخطر نہایت اطمینان وانبساط سے ایک دوسرے قبیلے کے جھروکوں سے دیکھتے اور باتیں کرتے ہوئے نہایت آرام سے گذر رہے ہیں۔ جیسا کہ قرآن شاہد ہے۔ ’’فاوحینا الیٰ موسیٰ ان اضرب بعصاک البحر فانفلق فکان کل فرق کا الطود العظیم وازلفنا ثم الآخرین وانجینا موسیٰ ومن معہ اجمعین (الشعرائ:۶۳،۶۴)‘‘
	جب موسیٰ علیہ السلام خیروخوبی سے دریاپار ہوتے ہیں تو فرعون معہ لشکر کے کنار نیل پر پہنچ کر دریائے حیرت میں غرق عقل وخرد سے مجبور محو تماشہ ہے کہ سمندر اپنی روانی کو بھول رہا ہے۔ بارہ سڑکیں ہیں جن کی آبی دیواروں پر محرابی سقف آویزاں ہیں اور اس پہ پانی ٹھاٹھیں اور موجیں مار کر بہ رہا ہے۔ اس عجوبہ نمائی نے ورطۂ حیرت میں ایسا محو کیا کہ فرعون کی آنکھوں کے سامنے موسیٰ علیہ السلام کے بچپن کا وہ زمانہ جس میں ان کی والدہ ماجدہ نے انہیں فرعون کے ڈر سے دریا میں صندوق میں بند کر کے خدا کے وعدے پر بہادیا تھا اور جو فرعون کے محل کی بائیں نہر میں دربار خاص کے سامنے بہتا ہوا جارہا تھا اور جس کو فرعون نے پکڑنے اور 
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 بسم اﷲ الرحمن الرحیم! 1 1
Flag Counter