Deobandi Books

احتساب قادیانیت جلد 21 ۔ غیر موافق للمطبوع - یونیکوڈ

99 - 377
اہل اسلام مسلم ہے کہ انبیاء کا رتبہ بہ نسبت اولیاء اﷲ کے بدر جہا بڑھا ہوا ہے۔ تو اسی نسبت سے ان کی حضوری بھی اولیاء کی حضوری سے بڑھی ہوئی ہوگی اور ظاہر ہے کہ اس حضوری میں درخواست واجابت فوراً ہوسکتی ہے۔ پھر جب حق تعالیٰ ان معجزات کی خبر دیتا ہے تو اتنا تو حسن ظن کر لیتے کہ جس طرح ہم نے کسی مقام میں لکھا ہے کہ وقت واحد میں ہم روبحق اور روبخلق رہتے ہیں۔ اسی طرح عیسیٰ علیہ السلام بھی ہوںگے۔ مگر اس تحریر کے وقت وہ بات مرزاقادیانی کے حافظے سے نکل گئی۔ اگر واقع میں ان کی ایسی حالت ہوتی تو بھول نہ جاتے۔ اب غور کیا جائے کہ آپ تو انبیاء کے ساتھ بھی حسن ظن نہیں رکھتے اور شکایت یہ کہ اپنی نبوت کا حسن ظن نہیں کیا جاتا اور اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مرزاقادیانی عیسیٰ علیہ السلام کو تقرب الٰہی میں اپنے برابر بھی نہیں سمجھتے۔
	مرزاقادیانی کی تقریر کا ماحصل یہ ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام کا دعا کرنا ثابت نہیں۔ باوجود اس کے یہ عجائبات صادر ہوتے تھے تو یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ بغیر دعا کے خلاف عقل معجزات ان سے کیونکر صادر ہوگئے۔ اس لئے بہتر یہ ہے کہ وہ معجزات انہیں کے اقتداری افعال ٹھہرائے جائیں اور مرزاقادیانی اس پر اس قدر اڑے ہیں کہ کتنی ہی حدیثیں جو اس باب میں وارد ہیں سنائے ایک نہیں سنتے۔ دیکھ لیجئے کہ تمام تفاسیر وکتب احادیث پر ان کی پوری نظر ہے اور وہ باآواز بلند سنا رہے ہیں کہ وہ معجزات خدا کے اذن اور حکم واجازت سے تھے اور ان کی ذاتی قدرت کو اس میں کوئی دخل نہ تھا۔ مگر ان کی سمجھ میں نہیں آتا نہ وہ کسی کی سنتے ہیں نہ سمجھتے ہیں کہ جب حق تعالیٰ نے ان کے معجزوں کی خبر دی ہے تو ضرور اس کا وقوع ایسے طور پر ہوا ہے کہ اس پر ایمان لانے میں کوئی شرک نہیں۔ مثلاً یوں سمجھا جائے کہ حق تعالیٰ کو ان کی نبوت دلوں میں متمکن کرنا اور جو نہ مانیں ان پر حجت قائم کرنا منظور تھا۔ اس لئے ان کے دعوے کے وقت خود حق تعالیٰ ان چیزوں کو وجود بخش دیتا تھا تو کسی قسم کا شرک لازم نہیں آتا۔ اب دیکھئے کہ باوجود یہ کہ آیت قرآنیہ کے معنی پورے طور پر بن جاتے ہیں۔ مگر صرف اس غرض سے کہ عیسیٰ علیہ السلام کے معجزے ثابت ہوں تو اپنی مساوات فوت ہو جاتی ہے۔ قرآن کے معنی بگاڑ رہے ہیں جس سے حق تعالیٰ پر یہ اعتراض ہوتا ہے کہ ایسی بات قرآن میں بیان کی جس سے لوگ مشرک ہوگئے۔ نعوذ باﷲ من ذلک! مسلمانوں کو لازم ہے کہ ایسی ہٹ دھرمیوں سے بہت احتراز کیا کریں۔ کیونکہ حق تعالیٰ فرماتا ہے۔ ’’قالو الوکنا نسمع اونعقل ما کنا فی اصحاب السعیر (ملک:۱۰)‘‘ {یعنی فرشتوں کے سوال کے جواب میں دوزخی کہیںگے کہ اگر ہم سنتے یا سمجھتے تو اہل دوزخ میں نہ ہوتے۔}
	’’فقنا عذاب النار (آل عمران:۱۹۱)‘‘
	مرزاقادیانی عبارت مذکورہ بالا میں لکھتے ہیں کہ ’’قرآن شریف کی آیات بھی باآواز بلند پکار رہی ہیں کہ مسیح کے ایسے عجائب کاموں میں اس کو طاقت بخشی گئی تھی۔‘‘ ہم بھی تو اسی آواز کو سن کر ایمان لائے ہیں کہ احیائے موتیٰ اور ابراء اکمہ وابرص وغیرہ عجائب اس قوت سے کرتے تھے جو ان کو حق تعالیٰ نے بخشی تھی۔ یہ کس نے کہا تھا کہ وہ اپنی ذاتی اور فطرتی قوت سے جوہر فرد بشر میں رکھی ہے یہ کام کرتے تھے۔ مگر مرزاقادیانی کہتے ہیں کہ وہ عام فطرتی طاقت سے کام لیتے تھے۔ جیسا کہ ابھی معلوم ہوا۔ اگر یہی بات ہے تو مرزاقادیانی میں بھی وہ فطرتی طاقت جوہر فرد بشر میں مودع ہے موجود ہے۔ میدان میں آکر دعویٰ ’’وابری الاکمہ والابرص واحیی الموتیٰ باذن اﷲ (آل عمران:۴۹)‘‘ وغیرہ کا کریں اور جس طرح حق تعالیٰ کی اخبار سے ہمیں اس کی تصدیق ہوگئی ہے اسی طرح اپنے دعوے کی بھی تصدیق کرادیں۔ مگر یہ ان کی حد امکان سے خارج ہے یہ کاغذ کے سفید چہرے کو سیاہی سے زینت دینا نہیں ہے کہ قلم اٹھایا اور چند صفحے لکھ ڈالے۔ یہاں نہ قلم 
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 بسم اﷲ الرحمن الرحیم! 1 1
Flag Counter