Deobandi Books

احتساب قادیانیت جلد 21 ۔ غیر موافق للمطبوع - یونیکوڈ

95 - 377
لہ کن فیکون‘‘ یعنی تم جو کچھ پیدا کرنا چاہو تو کن کہہ دیا کرو تو وہ چیز فوراً وجود میں آجائے گی۔ مرزاقادیانی کو اس وحی کے بعد حق تھا کہ ملہم سے کہہ دیتے کہ حضرت میں نے براہین احمدیہ کس محنت سے لکھی اور اس کے صلے میں کیسی دقتوں سے روپیہ جمع کیا۔ لوگوں کی خوشامدیں کیں، برابھلا کہا، عار دلائی۔ لوگوں نے میرے اس وعدے کے بھروسے پر مدد دی کہ نیچر اور جملہ فرق باطلہ پر اب فتح عظیم ہوجاتی ہے۔ میں کفار سے کہتے کہتے تھک گیا کہ مسلمان ہو جائو۔ مگر اب تک کوئی مسلمان نہ ہوا۔ میرے ہزارہا کن بیکار گئے اور جارہے ہیں۔ ایسا کن آپ ہی کو مبارک، میری تائید اسی قدر ہو تو کافی ہے کہ جو وعدے میں نے براہین میں کئے تھے جن پر تمام مسلمان فریفتہ ہوگئے تھے وہی پورے کرادئیے جائیں۔
	غرض ادنیٰ تامل سے معلوم ہوسکتا ہے کہ مرزاقادیانی کے کل دعوے مجرد ہیں۔ جن کے ساتھ کوئی دلیل نہیں جیسے اور دنیاداروں کی عادت ہے کہ جب دیکھتے ہیں کہ بغیر اس قسم کے دعوؤں کے کام نہیں نکلتا تو جھوٹ سچ کہہ کر کام نکال لیتے ہیں۔ مرزاقادیانی نے بھی یہی کام کیا کہ اپنی خوب سی تعلیاں کیں اور براہین احمدیہ میں وعدے کئے کہ نیچروں سے مقابلہ کرتا ہوں۔ پادریوں کو قائل کرتا ہوں۔ آریہ وغیرہ کو الزام دیتا ہوں وغیرہ وغیرہ۔ مگر ایفاء ایک کا بھی نہ ہوا اور اس ذریعے سے مسلمانوں سے ایک رقم خطیر حاصل کر لی۔ جس کے دینے پر وہ ہرگز راضی نہیں۔ کیا جن لوگوں نے روپیہ دیاتھا۔ اب وہ اس بات پر فخر کرسکتے ہیں کہ ہمارا روپیہ ایسے کام میں صرف ہوا کہ تمام روئے زمین کے مسلمان اس کی بدولت کافر بنائے جارہے ہیں۔ کیا ان کو یہ ندامت نہ ہوگی کہ مرزاقادیانی نے ہمیں احمق بنا کر اس قدر روپیہ ہم سے لے لیا اور ایسے کام میں لگایا کہ ہمارے ہی دین کی بیخ کنی ہورہی ہے۔ کیا اب وہ اس بات پر افسوس نہیں کرتے کہ اگر ذرا بھی ہمیں معلوم ہوتا کہ اس کارروائی کا انجام یہ ہونے والا ہے تو اس وقت اس کا دہ چند روپیہ مخالفت میں صرف کرتے تاکہ وہ آتش فتنہ اس قدر بھڑکنے ہی نہ پاتی۔
	حق تعالیٰ فرماتا ہے ’’یا ایہا الذین آمنوا لا تاکلوا اموالکم بینکم بالباطل الا ان تکون تجارۃ عن تراضٍ منکم (نسائ:۲۹)‘‘ {یعنی اے مسلمانو! ایک دوسرے کا مال باطل طریقے سے نہ کھاؤ۔ ہاں تراضی طرفین سے تجارت میں اگر مال لیا جائے تو مضائقہ نہیں۔}
	مرزاقادیانی براہین احمدیہ کی تصنیف اور طبع کے زمانے میں بخوبی جانتے تھے کہ یہ ایسا خنجر بنایاگیا ہے کہ جب بے رحمی سے مسلمانوں کے گلوں پر چلایا جائے گا تو باپ کو بیٹے سے بھائی کو بھائی سے جورو کو شوہر سے جدا کر دے گا۔ ایک دوسرے کا جانی دشمن اور خون کا پیاسا ہوجائے گا۔ مسلمانوں میں ایک تہلکہ عظیم برپا ہوگا۔ جس سے مخالفوں کو اقسام کے مواقع ہاتھ آجائیںگے۔ مسلمانوں کی حالت دیکھ کر وہ خوش ہوںگے۔ بغلیں بجائیں گئے، ناچیںگے کہ یہ قوم ایک زمانے تک خانہ جنگیوں سے فرصت نہیں پاسکتی۔ اگرچہ پہلی مخالفتیں بھی بہت تھیں۔ مگر امتداد زمانہ کی وجہ سے ان کا احساس کم ہوگیا تھا۔ اس نئی مخالفت کے پرانے ہونے کو ایک مدت دراز درکار ہے۔ 
	الحاصل اس نئی مخالفت نے تمام مسلمانوں کو ایک ایسے تہلکے میں ڈال دیا ہے کہ الامان علاوہ شماتت اعداء کے اس خانہ جنگی نے مخالفین اسلام کو پورا موقع دے دیا ہے کہ بے فکری سے اپنی کامیابیوں میں کوشش کریں کہ کیا اس تفرقہ انداز بلائے ناگہانی کے مول لینے پر کوئی مسلمان راضی ہوسکتا ہے کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ یہ مال مسلمانوں کی رضامندی سے انہوں نے حاصل کیا تھا؟۔ پھر باوجود اس کے کہ خدائے تعالیٰ نے ایسا مال لینے سے منع کردیا ہے۔ دھوکا دے کر جو مال مسلمانوں سے انہوں نے لیا اس کا خدا کو کیا جواب دیںگے؟۔ اب ہم ان کے تقدس کو کتنا ہی مانیں۔ مگر 
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 بسم اﷲ الرحمن الرحیم! 1 1
Flag Counter