Deobandi Books

احتساب قادیانیت جلد 21 ۔ غیر موافق للمطبوع - یونیکوڈ

93 - 377
(حقیقت الوحی ص۷۴، خزائن ج۲۲ ص۷۷)
	’’یااحمد یرفع اﷲ ذکرک ویتم نعمتہ علیک فی الدنیا والآخرۃ‘‘ 
(حقیقت الوحی ص۷۵، خزائن ج۲۲ ص۷۸)
	’’یا ایہا المدثرقم فانذر‘‘  (براہین احمدیہ حصہ سوم ص۲۴۲ حاشیہ، خزائن ج۱ ص۲۶۷)
	نوٹ! مذکورہ تمام الہامات براہین احمدیہ کی مختلف مواضع پر بھی درج ہیں۔
	اور جو معجزات انبیاء علیہم السلام کے قرآن وحدیث میں منقول ہیں سب کو گستاخانہ طور پر کہنا قرار دے کر عقلی معجزات کی ضرورت بتائی اور لکھا کہ میں نہ آتا تو جہان میں اندھیرا ہوجاتا۔ میرے متبعین کو غلبہ قیامت تک ہے۔ وغیر ذلک اور شق اوّل یعنی عیسیٰ علیہ السلام کی موت کی بحث ازالۃ الاوہام میں کر کے اپنی عیسویت کو جمایا۔ چنانچہ لکھا ہے کہ دیکھو یا عیسیٰ کا مجھ کو خطاب ہوا تھا اور میں رسول بھی ہوں اور خدا نے ہدایت کے لئے مجھے بھیجا ہے وغیرہ وغیرہ۔ اب رہی یہ بات کہ احادیث وغیرہ سے عیسیٰ علیہ السلام کا زندہ آسمانوں پر جانا ثابت ہے۔ تو ان میں تاویل کر ڈالی بلکہ ساقط الاعتبار کردیا اور تفسیروں کی نسبت یہ لکھ دیا کہ بیہودہ خیالات ہیں اور لکھا کہ کوئی شخص زندہ آسمانوں پر جانہیں سکتا اور اسی بناء پر نبیﷺ کے معراج جسمانی کا انکار ہی کردیا اور جو احادیث صحیحہ اس باب میں وارد ہیں۔ ان کی تغلیط کی اور ’’واذقال اﷲ یاعیسیٰ انی متوفیک ورافعک (آل عمران:۵۵)‘‘ سے یہ استدلال کیا کہ خداتعالیٰ نے ان کی خبر دی تھی کہ تم مرنے والے ہو اور تم کو میں اٹھانے والا ہوں۔ چونکہ اس آیت میں پہلے ان کی وفات کا ذکر ہے۔ اس سے ثابت کیا کہ وفات پہلے ہوئی اور اس کو نظر انداز کیا کہ واؤ ترتیب کے لئے ہے۔ حالانکہ کئی آیتوں سے ثابت ہے کہ واؤ سے جو عطف ہوتا ہے اس میں ترتیب نہیں ہوتی۔ اسی بناء پر ابن عباسؓ سے جو روایت ہے کہ اس آیۂ شریفہ میں معنی تقدیم وتاخیر ہے۔ اس کی نسبت کہا کہ انہوں نے اپنے لئے خدا کی استادی کا منصب قراردیا۔ پھر اپنے زعم میں عیسیٰ علیہ السلام کو میت قرار دے کر لکھا کہ کسی مرے ہوئے کو خدانے زندہ کیا ہی نہیں۔ حالانکہ متعدد واقعات میں ہزارہا مردوں کا زندہ ہونا قرآن شریف سے ثابت ہے۔ سب میں تاویلیں کر کے ان کا انکار کردیا اور جس قدر احادیث اس باب میں وارد ہیں۔ سب کو غلط ٹھہرایا پھر اس مسئلے میں یہاں تک ترقی کی کہ قیامت میں بھی عیسیٰ علیہ السلام کا زمین پر آنا غیر ممکن بتایا اور حشر اجساد سے صاف انکار کردیا اور دجال اور امام مہدی کے باب میں جتنی حدیثیں وارد ہیں سب کی تکذیب کی۔
	غرض کہ اپنے مقاصد میں جس آیت یا حدیث کو ہارج دیکھا سب کی تکذیب یا تحریف کرڈالی۔ ان کے سوا اور بہت سے مباحث ہیں جن کا ذکر موجب تطویل ہے۔ حاصل یہ کہ براہین احمدیہ اور ازالۃ الاوہام کو خاص اپنی عیسویت اور نبوت ثابت کرنے کی غرض سے لکھا۔ جیسا کہ الہامات مذکورۂ بالا سے ثابت ہے۔
	نبوت کی آرزو ابتداء میں مسیلمہ کذاب کو ہوئی۔ اس کے بعد اکثر عقلاء کو ہوئی اور چونکہ آیۂ شریفہ خاتم النبیین اور حدیث لا نبی بعدی ان کی تکذیب کرتی تھی۔ اس کے جواب کے لئے بہت سی تدبیریں سوچی گئیں۔ بعضوں نے معنی میں تصرف کیا۔ بعضوں نے یہ تدبیر کی کہ لانبی بعدی کے بعد الا ان یشاء اﷲ روایت میں زیادہ کردیا مگر کسی کی چلی نہیں گو بعض بے دینوں نے مان لیا۔ مگر عموماً اہل اسلام ان کی تکذیب ہی کرتے رہے۔ مرزاقادیانی نے دیکھا کہ اس زمانے میں روایت کی 
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 بسم اﷲ الرحمن الرحیم! 1 1
Flag Counter