Deobandi Books

احتساب قادیانیت جلد 21 ۔ غیر موافق للمطبوع - یونیکوڈ

88 - 377
کی مخالفت کی ضرورت پڑتی تھی۔ اس لئے یہ قاعدہ قرار دیا جو (ازالۃ الاوہام ص۱۳۹، خزائن ج۳ ص۱۷۱) میں لکھا ہے کہ ’’کشف سے معانی قرآن نئے طور سے کھلتے ہیں تو لوگ اس کا انکار کرتے ہیں۔‘‘
	اب قرآن میں کمی وزیادتی کی ضرورت ہی کیا۔ آسان طریقہ نکل آیا کہ جو آیت قرآنی اپنے مقصود کے مخالف ہو اس کے معنیٰ کشف سے بحسب ضرورت گھڑ لئے اور قرآن بلاکم وزیادت اپنی جگہ رکھا رہا۔ جیسے ایک جعلی نبی کو ’’حرمت علیکم المیتۃ والدم ولحم الخنزیر (مائدہ:۳)‘‘ میں کشف سے معلوم ہوا تھا کہ میتہ اور دم وغیرہ پڑھنے سے مراد چند معیّن اشخاص تھے۔ جن کے لئے حرّمت کا لفظ استعمال کیاگیا۔ مردار اور سور اور خون وغیرہ سے اس آیت کو کیا تعلق۔ یہ سب چیزیں حلال طیب ہیں۔ دیکھئے ابھی معلوم ہوا کہ مرزاقادیانی (ازالۃ الاوہام ص۱۹۸، خزائن ج۳ ص۱۹۶) میں لکھتے ہیں کہ ’’یہ بیان جو براہین میں درج ہوچکا ہے اس سرسری پیروی کی وجہ سے تھا جو ملہم کو قبل انکشاف اصل حقیقت اپنے نبی کے آثار مرویہ کے لحاظ سے لازم ہے۔‘‘
	آثار مرویہ کے مضامین جو مرزاقادیانی نے براہین میں لکھے ہیں اوراس کی ابھی نقل کی گئی۔ یہی ہیں کہ عیسیٰ علیہ السلام نہایت جلالت کے ساتھ دنیا میں اتریںگے اور الہام سے ان کو معلوم ہوا کہ وہ مرگئے۔ اب نہ اتریںگے اور آثار نبویہ سے معلوم ہوا کہ عیسیٰ علیہ السلام آکر کج اور ناراست کا نام ونشان دنیا میں باقی نہ رکھیںگے اور الہام ہوا کہ ایسا نہ ہوگا۔ بلکہ عیسیٰ یعنی مرزاقادیانی ایسے داؤ پیچ کریںگے کہ انکا سمجھنا مشکل ہوگا۔
	آثار نبویہ میں ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام کے وقت جلال الٰہی گمراہی کے تخم کو اپنی تجلی سے نیست ونابود کردے گا اور الہام یہ ہوا کہ ایسا نہ ہوگا۔ بلکہ کروڑہا مسلمان جو موجود ہیں وہ بھی کافر ہو جائیںگے۔ جب نبی کے ارشاد اور امتی کے الہام میں اس قدر فرق ہو کہ نبیﷺ جس چیز کے وجود کی خبر دیں۔ الہام اس کا عدم ثابت کرے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ نبی کی تکذیب الہام سے درست ہے۔ پھر جب تکذیب درست ہو تو تنسیخ کون سی بڑی بات ہے۔ بہرحال مرزاقادیانی کے الہام معمولی نہیں نبوت کے رنگ میں ہیں رفتہ رفتہ بہت کچھ رنگ لانے والے ہیں۔
	غرض اس قسم کے قاعدے اسی غرض سے قرار دئیے کہ مطلب برآری میں کوئی رکاوٹ نہ رہے اور خوش کن الفاظ بھی اپنی جگہ قائم رہیں۔ پھر اگر پابندیوں سے کوئی مجبوری واقع ہو اور موقع مل جائے تو ان خوش کن الفاظ کو ہٹادینا کون سی بڑی بات ہے۔ دیکھ لیجئے (ازالۃ الاوہام ص۱۹۰، خزائن ج۳ ص۱۹۲) میں لکھتے ہیں کہ ’’میں نے یہ دعویٰ ہرگز نہیں کیا کہ میں مسیح ابن مریم ہوں۔ جو شخص یہ الزام میرے پر لگاوے وہ سراسر مفتری وکذاب ہے۔‘‘ اور نیز (ازالۃ الاوہام ص۱۹۸، خزائن ج۳ ص۱۹۶،۱۹۷) میں لکھتے ہیں کہ ’’میں نے براہین احمدیہ میں جو کچھ مسیح ابن مریم کے دوبارہ دنیا میں آنے کا ذکر لکھا ہے ظاہری اعتقاد کے لحاظ سے لکھا ہے۔‘‘ اور (ازالۃ الاوہام ص۴۱۳، خزائن ج۳ ص۳۱۴،۳۱۵) میں لکھتے ہیں کہ ’’یہ بات بہ بداہت ثابت ہے کہ ابن مریم سے وہ ابن مریم رسول اﷲ مراد نہیں ہے جو فوت ہوچکا ہے اور فوت شدہ جماعت میں جاملا اور خدائے تعالیٰ کی حکمت عجیبہ پر بھی نظر ڈالو کہ اس نے آج سے قریباً دس برس پہلے اس عاجز کا نام عیسیٰ رکھا اور بتوفیق وفضل براہین میں چھپوا کر ایک عالم میں اس نام کو مشہور کردیا اور ایک مدت دراز کے بعد اپنے خاص الہام سے ظاہر فرمایا کہ یہ وہی عیسیٰ ہے جس کے آنے کا وعدہ تھا۔ برابر دس برس تک لوگ اس نام کو براہین میں پڑھتے رہے۔ خدائے تعالیٰ نے دس برس تک اس دوسرے الہام کو جو پہلے الہام کے لئے بطور تشریح تھا پوشیدہ رکھا۔‘‘

x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 بسم اﷲ الرحمن الرحیم! 1 1
Flag Counter