Deobandi Books

احتساب قادیانیت جلد 21 ۔ غیر موافق للمطبوع - یونیکوڈ

87 - 377
سمجھ لیا جائے۔ مگر مرزاقادیانی نے ان تمام الہاموں کے مجموعے کو عیسویت کا دعویٰ کر کے ازالۃ الاوہام میں پیش کردیا کہ وہ سب اہل اسلام کے مقبولہ ہیں۔
	ان تمام کارروائیوں کے بعد کیا عقلاً پھر یہ بات پوشیدہ رہے گی کہ براہین احمدیہ کس غرض سے تصنیف کی گئی تھی۔ علانیہ کہا جاتا ہے کہ وحی مستقل، کعبہ مستقل، خلافت الٰہی مستقل، مغفرت جملہ معاصی حاصل، ساری امت اپنی جنتی، غرض جتنے امور کلیہ مرغوبہ پیش نظر تھے سب اس میں طے کر دئیے گئے۔ ایک مدت تک مرزاقادیانی چپ چاپ طبیعتوں کا اندازہ کرتے ہوئے ہوشیاری سے قدم جماتے جاتے تھے اور ادھر لوگ اس غفلت میں کہ آخر الہام بھی مرتاض لوگوں پر ہوا ہی کرتے ہیں اور اس کا ظاہری معنوں پر حمل کرنا بھی ضروری نہیں۔ ممکن ہے کہ خواب کی سی کوئی تعبیر لی جائے۔ مگر مرزاقادیانی نے نبوت کے دعوے کے ساتھ جب وہ تمام دعوے شروع کردئیے اس وقت لوگ چونکے اور جن کو خاتم النبیینﷺ کے ساتھ تعلق باقی رکھنا منظور تھا وہ علیحدہ ہوگئے۔ یہی وجہ تھی کہ علماء نے جب تک دین کا فائدہ خیال کرتے تھے مصلحتاً ان کے الہاموں کی تکذیب نہیں کی۔ جیسا کہ مرزاقادیانی (ازالۃ الاوہام ص۱۹۱، خزائن ج۳ ص۱۹۲،۱۹۳) میں لکھتے ہیں۔ ’’تعجب ہے کہ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی ان تمام الہاموں کی اگرچہ ایمانی طور پر نہیں مگر امکانی طور پر تصدیق کرچکے اور بدل وجان مان چکے… مگر ان کو بھی منکرانہ جوش دل میں اٹھتا ہے۔‘‘ تعجب کی کوئی بات نہیں اس وقت یہ خیال جما ہوا تھا کہ مرزاقادیانی سچ مچ مسلمانوں کی طرف سے کفار کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ اس لئے ان الہاموں کو مصلحتاً دائرہ امکان میں داخل کردیا۔ مگر وہ امکان ایسا ہے جیسے کروڑ سرکاآدمی پیدا ہونا ممکن ہے۔ جس کا بدل وجان ماننا ممکن نہیں۔ پھر جب مرزاقادیانی کا حال معلوم ہوگیا کہ مسلمانوں کے بلکہ اسلام کے دشمن ہیں۔ اس لئے ان کو بھی مثل تمام مسلمانوں کے انکار کا جوش پیدا ہوگیا۔
	یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس کی کیا وجہ کہ باوجود ان تمام دعوؤں کے مرزاقادیانی نے نبوت مستقلہ کا دعویٰ نہیں کیا اور اپنی نبوت ورسالت کو ظلی بتاتے ہیں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ یقین کیونکر کیا جائے کہ استقلال کا دعویٰ ان کے پیش نظر نہیں ہے۔ براہین احمدیہ کی تصنیف کے زمانے میں بھی تو کوئی دعویٰ نہ تھا۔ صرف تمہید ہی تمہید تھی۔ مگر جب موقع مل گیا تو وہ سب تمہیدات دعوؤں کی شکل میں آگئے۔ اسی طرح بحسب ضرورت باقی دعوے بھی وقتاً فوقتاً ظہور میں آتے جائیںگے اور اس پر قرینہ بھی موجود ہے کہ ان تمام دعوؤں میں کہیں بھی ظلیت کا نام نہیں لیا گیا۔ چونکہ مقصود کامیابی ہے سو وہ لفظ طفیلیت کی بدولت ہو رہی ہے۔ اگر مستقل نبوت کا دعویٰ کریں تو اندیشہ لگا ہوا ہے کہ کہیں کل تمہیدات اور بنی بنائی بات بگڑ نہ جائے۔ کیونہ اس پر کوئی مسلمان راضی نہ ہوگا کہ خاتم النبیینﷺ کے بعد کوئی مستقل نبی ہو اور بظاہر یہ بھی ممکن نہیں ہوتا کہ کوئی دوسرے فرقے والا ان کی نبوت کی تصدیق کرے۔ اس لئے کہ ایک مدت دراز سے اشتہارات اور کتب شائع کر رہے ہیں۔ مگر اب تک کوئی عیسائی یا ہندو قادیانی سنا نہیں گیا۔ یہ تو آخری زمانے والے مسلمانوں ہی کی قسمت ہے۔ جو جوق جوق کھینچے جاتے ہیں۔
	غرض جب انہوں نے دیکھا کہ ایک بنی بنائی امت صرف لفظ طفیلی اور ظلی کہہ دینے سے اپنی امت ہو جاتی ہے تو اس لفظ کے کہنے سے کیا نقصان بلکہ اس قسم کے اور کئی الفاظ کہہ دئیے جائیں تو بھی کیا قباحت۔ اسی وجہ سے (ازالۃ الاوہام ص۱۳۷، خزائن ج۳ ص۱۷۰) میں لکھتے ہیں کہ ’’ایک لفظ قرآن کا کم وزائد نہیں ہوسکتا۔‘‘ اور (ازالۃ الاوہام ص۱۳۷، خزائن ج۳ ص۱۷۰) میں لکھتے ہیں کہ ’’کوئی ایسا الہام نہیں ہوسکتا جس سے قرآن میں تغیر ہو۔‘‘ اسی قسم کی اور عبارتیں بھی ہیں جن سے کمال درجے کا تدیّن نمایاں ہے۔ مگر چونکہ اغراض ذاتی ثابت کرنے میں اکثر قرآن وحدیث 
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 بسم اﷲ الرحمن الرحیم! 1 1
Flag Counter