Deobandi Books

احتساب قادیانیت جلد 21 ۔ غیر موافق للمطبوع - یونیکوڈ

77 - 377
یزعم انہ رسول اﷲ‘‘ اس سے ظاہر ہے کہ ان تیس دجالوں کے امتی آنحضرتﷺ کے امتی نہیں ہوسکتے۔ کیونکہ دجالوں کا امتی ہونا قرین قیاس نہیں۔ پھر جب ان کے نبی، حضرتؐ کے امتی نہ ہوں تو ان کے امتی، حضرتؐ کے امتی کیونکر ہو سکیں۔
	غرض جو مذہب نیا نکلتا ہے اس میں داخل ہونے کے وقت نبیﷺ کے امتیوں کو اتنا تو پیش نظر رکھنا چاہئے کہ بہتر(۷۲) مذہب سے خارج نہ ہوں۔ جن پر حضرت کے امتی ہونے کا اطلاق کیاگیا ہے۔ کیونکہ یہ مذاہب گوناریہ ہوں۔ مگر مخلد فی النار نہیں اور جو ان سے بھی خارج ہو اس میں داخل ہونا تو ابدلآباد کے لئے اپنی تباہی اور ہلاکت کا سامان کرنا ہے۔
	اس کی وجہ سمجھ میں نہیں آتی کہ جب کوئی نیا مذہب نکلتا ہے تو لوگ اس کی طرف فقط مائل ہی نہیں بلکہ صدق دل سے اس کے گروید ہو جاتے ہیں۔ مسیلمہ کذاب نے جب نبوت کا دعویٰ کیا تو تھوڑی مدت میں ایک لاکھ سے زیادہ آدمی فراہم ہوگئے اور اس خوش اعتقادی کے ساتھ کہ جان دینے پر مستعد، چنانچہ لڑائیوں میں بہت سے مارے بھی گئے۔ حالانکہ سوائے طلاقت لسانی کے جو کچھ فقرے گھڑ لیتا تھا کوئی دلیل نبوت کی اس کے نزدیک نہ تھی۔ بلکہ معجزے کے غرض سے جو کچھ کرتا اس کا خلاف ظہور میں آتا۔ مگر وہ کور باطن اس کا کلمہ پڑھتے اور باوجود یہ کہ آنحضرتﷺ کے ہزارہا معجزات اظہر من الشمس تھے۔ مگر ان کے اعتقادوں کو کوئی جنبش نہ ہوتی۔ اسی طرح اب تک یہی کیفیت دیکھی جاتی ہے کہ نئی بات اور نئے مذہب کی طرف طبیعتیں بہت مائل ہیں۔ چنانچہ فی زمانہ بھی ایک نیا مذہب نکلا ہے۔ جس کو مرزاغلام احمد قادیانی نے ایجاد کیا ہے اور لوگ اس کی طرف مائل ہوئے جاتے ہیں۔
	ایک زمانے تک مرزاقادیانی کی نسبت مختلف افواہیں سنی گئیں کوئی کہتا تھا کہ ان کو مجددیت کا دعویٰ ہے کوئی کہتا تھا کہ مہدویت کا بھی دعویٰ ہے۔ کوئی کہتا تھا کہ عیسیٰ موعود بھی اپنے آپ کو کہتے ہیں۔ ان پریشان خبروں سے طبیعت کو کسی قدر پریشانی تو تھی۔ مگر اس وجہ سے کہ آخری زمانے کا مقتضیٰ یہی ہے کہ اس قسم کی نئی نئی باتیں پیدا ہوں طبیعت اس کی تحقیق کی طرف مائل نہ تھی۔ یہاں تک کہ ایک شخص نے بطور ابلاغ پیام ایک اشتہار مجھ کو دکھلایا۔ جس میں ان کو نہ ماننے والوں کی تکفیر تک تھی۔ اس وقت یہ خیال پیدا ہوا کہ آخر اس مذہب کی حقیقت کیا ہے ان کی کسی کتاب سے معلوم کرنا چاہئے۔ چنانچہ تلاش کرنے سے مرزاقادیانی کی تصنیف ’’ازالۃ الاوہام‘‘ ملی اور سرسری طور پر اس کو دیکھا گیا۔ مگر مرزاقادیانی کے فحوائے کلام سے معلوم ہوا کہ جب تک یہ کتاب پوری نہ دیکھی جائے ان کے مذہب کی حقیقت اور ان کا مقصود معلوم نہ ہوگا۔ اس لئے اوّل سے آخر تک اس کو پھر دیکھا اس سے کئی باتیں معلوم ہوئی۔ جن میں سے ایک یہ ہے کہ مرزاقادیانی بڑے عالی خاندان شخص ہیں۔ مختصر حال ان کے خاندان کا یہ ہے کہ ان کے جدا علیٰ بابر بادشاہ کے وقت جو چغتائی سلطنت کا مورث اعلیٰ تھا۔ ثمرقند میں ایک جماعت کثیرہ لے کر دہلی آئے اور بہت سے دیہات بطور جاگیر ان کو دئیے گئے۔ آپ نے وہاں بہت بڑا قلعہ تیار کیا اور ایک ہزار فوج سوار اور پیادے کے ساتھ وہاں رہتے تھے۔ جب چغتائی سلطنت کمزور ہوئی۔ آپ نے ایک ملک پر قبضہ کرلیا اور تو پخانہ وغیرہ فراہم کر کے بطور طوائف الملوک مستقل رئیس ہوگئے۔ مرزاگل محمد صاحب جو مرزاقادیانی کے پردا داہیں انہوں نے سکھوں سے بڑے بڑے مقابلے کئے اور تن تنہا ہزار ہزار سکھوں کے مقابلے میں کامیاب ہوئے۔ مگر مسلمانوں کی بدقسمتی تھی کہ باوجود یہ کہ انہوں نے بہت کچھ کوششیں کیں کہ ایک وسیع ملک فتح کر کے اس کو دار الاسلام بنادیں مگر نہ ہوسکا۔ پھر ان کے فرزند مرزاعطاء محمد صاحب کے عہد ریاست میں سوائے قادیان اور چند دیہات کے تمام ملک قبضے سے نکل گیا اور آخر سکھوں کے جبروتعدی سے اپنا مستقر بھی ان کو چھوڑنا 
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 بسم اﷲ الرحمن الرحیم! 1 1
Flag Counter