Deobandi Books

احتساب قادیانیت جلد 21 ۔ غیر موافق للمطبوع - یونیکوڈ

70 - 377
	(ازالۃ الاوہام ص۷۲۵ حاشیہ، خزائن ج۳ ص۴۸۹،۴۹۰) میں لکھتے ہیں کہ ’’آیت انا علیٰ ذہاب بہ لقادرون‘‘ میں ۱۸۵۷ء کی طرف اشارہ ہے۔ جس میں ہندوستان میں ایک مفسدۂ عظیم ہوکر آثار باقیہ اسلامی سلطنت کے ملک ہند سے ناپدید ہوگئے تھے۔ کیونکہ اس آیت کے اعداد بحساب جمل ۱۲۷۴ ہیں اور ۱۲۷۴ کے زمانہ کو جب عیسوی تاریخ میں دیکھنا چاہیں تو ۱۸۵۷ء ہوتا ہے… جس کی نسبت خدائے تعالیٰ آیت موصوفۂ بالا میں فرماتا ہے کہ جب وہ زمانہ آئے گا تو قرآن زمین پر سے اٹھایا جائے گا… پر اس حکیم وعلیم کا قرآن میں یہ فرمانا کہ ۱۸۵۷ء عیسوی میں میرا کلام آسمان پر اٹھایا جائے گا۔ یہی معنی رکھتا ہے کہ مسلمان اس پر عمل نہیں کریںگے۔ جیسا کہ مسلمانوں نے ایسا ہی کیا۔‘‘ (نیز ازالۃ الاوہام ص۶۵۷، خزائن ج۳ ص۴۵۵) میں لکھتے ہیں کہ ’’حدیثوں میں یہ بات بوضاحت لکھی گئی ہے کہ مسیح موعود اس وقت دنیا میں آئے گا کہ جب علم قرآن زمین پر سے اٹھ جائے گا اور جہل شیوع پاجائے گا۔ یہ وہی زمانہ ہے جس کی طرف ایک حدیث میں اشارہ ہے۔ ’’لوکان الایمان معلقاً عند الثریالنالہ رجل من فارس‘‘ یہ وہ زمانہ ہے جو اس عاجز پر کشفی طور پر ظاہر ہوا۔ جو کمال طغیان اس کا اس سن ہجری میں شروع ہوگا۔ جو آیت وانا علی ذہاب بہ لقادرون میں بحساب جمل مخفی ہے۔‘‘
	اس تقریر میں عقلی معجزہ مرزاقادیانی کا یہ ہے کہ ۱۲۷۴ھ سے قرآن کو غائب کردیا۔ پھر ۱۳۰۰ھ میں اسے ثریا سے اتار لایا۔ کیونکہ (ازالۃ الاوہام ص۱۸۶، خزائن ج۳ ص۱۸۹،۱۹۰) سے واضح ہے کہ مسیح کے ظہور کی تاریخ غلام احمد قادیانی (۱۳۰۰ھ) ہے۔ مرزاقادیانی کو قرآن غائب کرنے کے لئے اتفاقاً غدر کا موقع ہاتھ آگیا۔ مگر اس میں یہ کسر رہ گئی کہ غدر تو ہندوستان کے لوگوں نے کیا تھا۔ قرآن حرمین، عرب، روم، شام، بلخ، بخارا، افغانستان، چین وافریقہ وغیرہ سے کیوں اٹھالیاگیا۔ مرزاقادیانی نے روئے زمین کو ہندوستان میں منحصر کر کے سب کو اس شعر کا مصداق سمجھا۔
ہرآں کرمیکہ درگندم نہانست
زمین وآسمان اوہما نست
	ورنہ کبھی یہ نہ فرماتے کہ غدر میں قرآن زمین سے اٹھالیاگیا اور قرآن اگر ہندوستان سے اٹھالیاگیا تھا تو دوسرے اسلامی ملکوں میں ضرور باقی تھا۔ پھر پچیس تیس سال تک کیا کوئی دوسرے ملک کا مسلمان ہندوستان میں آیا ہی نہیں یا کوئی ہندوستان اس رت میں حج کو ہی نہیں گیا۔ جو وہاں سے اپنے اور اپنے بھائیوں کی دین ونیا کی بہبودیوں کا ذریعہ اور ایمان کا مدار دہان سے لے آتا اور مرزاقادیانی کو ثریا سے اتار لانے کی زحمت نہ ہوتی اس بیان سے مقصود یہ ہے کہ جہاں اتفاقی امر میں مرزاقادیانی کو کسی قسم کا موقع مل جاتا ہے تو اس کو استدلال میں پیش کر دیتے ہیں اور کسی بات کی پروا نہیں کرتے۔ دیکھئے کس ڈھٹائی سے کہتے ہیں کہ خدا نے قرآن میں فرمایا کہ ۱۸۵۷ء میں میرا کلام آسمان پر اٹھایا جائے گا تاکہ جاہلوں اور امنا وصدقنا کہنے والوں کو یقین ہوکہ قرآن ہاتھ سے نکل ہی گیا تھا۔ اگر مرزاقادیانی نہ ہوتے تو کس سے یہ ہوسکتا کہ ثریا پر جاکر وہاں سے اسے لے آتا۔
	علامہ جوہریؒ نے (کتاب المختار) میں لکھا ہے کہ حجاز کے کسی شہر میں ایک شخص سے ملاقات ہوئی۔ جس کا نام سلیمان مغربی تھا۔ اس کی عجیب حالت دیکھی گئی کہ جو مہمان اس کے ہاں جاتا۔ جس قسم کے کھانے کی خواہش کرتا غیب سے اس کا سامان ہوجاتا تھا۔ چنانچہ ہم آٹھ شخص اس کے ہاں گئے۔ ہر ایک نے ایک خاص قسم کے کھانے کی فرمائش کی شیخ اپنے خلوت خانے میںجاکر 
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 بسم اﷲ الرحمن الرحیم! 1 1
Flag Counter