Deobandi Books

احتساب قادیانیت جلد 21 ۔ غیر موافق للمطبوع - یونیکوڈ

65 - 377
	عقلی معجزات کا نام سن کر عقلاء کی عقلوں کو ضرور یہ خیال پیدا ہوگا کہ مرزاقادیانی کی عقل مشاقی پیدا کر کے نبوت حاصل کرے تو کیا ہم اس قابل بھی نہیں کہ اس کے تراشیدہ معجزات کو سمجھ سکیں۔ اس میں شک نہیںکہ مرزاقادیانی بہت بڑے عاقل ہیں۔ مگر عقلاء کا دستور اور متقضائے عقل ہے کہ یہ بڑا کام کرنا منظور ہوتا ہے تو اس میں کتب تواریخ ووقائع سے مدد لے کر پہلے علمی مواد حاصل کر لیتے ہیں۔ جس سے عمل میں آسانی ہوتی ہے۔ اگرچہ مرزاقادیانی ایک مدت دراز سے اسی طرف متوجہ ہیں۔ ان کی نظر عقلاء کی کارروائیوں اور اعجاز نمائیوں میں نہایت وسیع ہے۔ اس کا احاطہ ہم سے متعذ رہے۔ مگر باوجود کم فرصتی اور بے توجہی کے چند مثالیں جو ہمیں مل گئی ہیں وہ بیان کی جاتی ہیں۔ اس سے ظاہر ہوگا کہ مرزاقادیانی نے سابق کے عقلاء سے کیسی مسابقت کی اور انصاف سے دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ بعض امور میں انہیں کی عقل کے گھوڑے بڑھے رہے۔
	ابو الریحان خوارزمیؒ نے ’’الآثار الباقیہ عن القرون الخالیہ‘‘ میں لکھا ہے کہ ’’یوذ آسف جو ملک طہمورث کے وقت میں ہندوستان میں آکر نبوت کا دعویٰ کیا تھا اور دراصل وہ ستارہ پرست تھا۔ اس نے ابراہیم علیہ السلام کی نسبت یہ تہمت لگائی کہ وہ ستارہ پرست تھے۔ اتفاقاً ان کے قلفہ میں برص نمودار ہوا۔ اس زمانے میں برص والے کو لوگ نجس سمجھ کر اس سے مخالطت نہیں کرتے تھے۔ اس وجہ سے انہوں نے اپنے قلفہ کو قطع کر ڈالا۔یعنی اپنی ختنہ کی، جب کسی بتخانے میں حسب عادت گئے تو کسی بت سے آواز ائی کہ اے ابراہیم تم ایک عیب کی وجہ سے ہمارے پاس چلے گئے تھے اوراب وہ عیب لے کر آئے ہو۔ چلو ہمارے پاس سے نکلو اور پھر یہاں کبھی نہ آنا یہ سن کر ان کو غصہ آیا اور اس بت کے ٹکڑے ٹکڑے کر دئیے اور مذہب بھی چھوڑ دیا۔ اس کے بعد ان کو اپنے فعل پر ندامت ہوئی اور چاہا کہ اپنے بیٹے کو مشتری کے لئے ذبح کریں۔ کیونکہ اس زمانے میں دستور تھا کہ ایسے مواقع میں اپنی اولاد کو ذبح کیا کرتے تھے۔ جب مشتری کو ان کی سچی توبہ کی صداقت معلوم ہوگئی تو ایک دنبہ ان کے فرزند کے عوض میں دے دیا۔‘‘
	اسی طرح مرزاقادیانی نے بھی عیسیٰ علیہ السلام پر تہمت لگائی کہ مسمریزم سے وہ قریب الموت مردوں کو حرکت دیتے تھے۔ یعنی جادوگر تھے اور اپنے باپ نجار سے کلوں کی چڑیاں بنانا سیکھ لیاتھا اور تالاب کی مٹی میں خاصیت تھی۔ جس سے وہ چڑیاں بناتے اور کلوں کے ذریعے سے حرکت دیتے تھے اور کوڑہی وغیرہ کااسی مٹی سے علاج کرتے تھے۔ تعجب نہیں کہ یوذ آسف کی تقریر نے مرزاقادیانی کو اس طرف توجہ دلائی ہو کیونکہ ’’سخن از پہلوئے سخن می خیزد‘‘ اور اگر بغیر تقلید کے وہ خود انہیں کا اختراع ہے تو پھر کون کہہ سکتاہے کہ ان کی طبیعت یوذ آسف کی طبیعت سے کم ہے۔ اسی طرح مسیح علیہ السلام کے سولی پر چڑھانے کا واقعہ انہوں نے اپنی طبیعت سے تراشا کہ ان کو یہود نے سولی پر چڑھایا اور مر گئے سمجھ کر شام سے پہلے اتارلیا۔ اتفاقاً اس وقت آندھی چلی اور گڑبڑ میں وہ بھاگ گئے اور پنے وطن گلیل میں مرے اور پھر کشمیر میں آکر مرے۔ چنانچہ وہاں ان کی قبر موجود ہے۔ حالانکہ یہ قصہ نہ مسلمان کی کسی کتاب میں ہے نہ عیسائیوں کی کتاب میں۔ اسی طرح دجال وغیرہ کے حالات میں اپنی طبیعت سے واقعات اور اسباب تراشتے ہیں۔ اگر اہل علم ازالۃ الاوہام کو دیکھیںگے تو معلوم ہوگا کہ ہمارے زمانے میں مرزاقادیانی کی طبیعت یوذ آسف کی طبیعت سے اس باب میں کم نہیں۔ واقعات اور آیات واحادیث کے نئے نئے مضامین تراشنے میں ان کو کمال ہے۔ علماء کو عقلی لطف اٹھانے کے لئے یہ کتاب قابل دید ہے اور اگر بیچارے بے علم حسن ظن سے اس کو دیکھ لیں تو ضرور گمراہ ہو جائینگے۔ کیونکہ یہ بات ظاہر ہے کہ جو شخص ابراہیم علیہ السلام کے اصل واقعات کو نہ جانتا ہو اور یوذ آسف کی تقریر مذکور کو حسن ظن سے دیکھ لے تو پھر اس کو اس بات کی تصدیق کرنے میں کہ ابراہیم علیہ السلام نعوذ باﷲ 
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 بسم اﷲ الرحمن الرحیم! 1 1
Flag Counter