Deobandi Books

احتساب قادیانیت جلد 21 ۔ غیر موافق للمطبوع - یونیکوڈ

63 - 377
ضرور پڑے گا اور ادنیٰ عقل والے بھی سمجھ جائیںگے کہ دونوں مرزا ایک ہی قسم کا کام کر رہے ہیں اور جس طرح انکار شہادت عقلی احتمالوں کے پیدا کرنے سے کوئی عاقل کر نہیں سکتا۔ اسی طرح عیسیٰ علیہ السلام کی حیات ونزول کا انکار عاقل مسلمان کی شان سے بعید ہے۔ ہم بھی اس مقام میں ایک سچی پیش گوئی کرتے ہیں کہ مرزاقادیانی کو کتنا ہی اشتعال دیجئے وہ مرزا حیرت صاحب کا مقابلہ نہ کریںگے اور اگر بالفرض کیا بھی تو ممکن نہیں کہ کامیاب ہو سکیںگے۔
	یہاں ایک دوسرا مسئلہ پیش نظر ہوتا ہے کہ تواتر جس کے بعد یقین کی کیفیت پیدا ہوتی ہے اس کے لئے کتنے شخصوں کی خبر کی ضرورت ہے۔ سو اس کا تصفیہ خود ہر شخص کا وجدان کر سکتا ہے۔ اس لئے کہ یقینی کیفیت ایک وجدانی خبر ہے۔ اگر یہ قرار دیا جائے کہ مثلاً سو آدمیوں کی خبر سے یقین ہوجاتا ہے تو بعض مواقع ایسے بھی ہوںگے کہ سو تو کیا لاکھوں آدمیوں کی بات بھی قابل اعتبار نہ سمجھی جائے گی۔ مثلاً کوئی جھوٹا نبوت کا دعویٰ کر کے کسی بات کی خبر دے اور اس کے ہزارہا پیرو بھی وہی خبردیں تو یقین تو کیا وہم بھی نہ ہوگا۔ دیکھ لیجئے مرزاقادیانی خبر دیتے ہیں کہ عیسیٰ علیہ السلام کی قبر کشمیر میں ہے اور ن کے اتباع بھی لوگوں سے یہی کہتے ہیں۔ مگر اب تک کسی کو وہمی طور پر بھی اس کا تصور نہ ہوا۔ بہ خلاف اس کے مسلمانوں کو اپنے نبی کی خبر پر وہ یقین ہوتا ہے کہ اگر اس کے خلاف لاکھوں آدمی کہیں تو اس یقین پر ذرا بھی برا اثر پڑ نہیں سکتا۔ اسی طرح مسلمانوں کے نزدیک مسلم ہے کہ کل صحابہؓ عدول اور سچے تھے۔ اس وجہ سے مسلمان کو دو چار ہی صحابہ کا اتفاق کسی خبر پر معلوم ہوتو اس کے یقین کی کیفیت دل میں پیدا ہوجاتی ہے اور منافق سو صحابیوں کی خبر کو بھی نہ مانے گا۔ الغرض اس یقین کی کیفیت پیدا ہونے کا مدار حسن ظن پر ہے۔ جس قدر مخبروں پر حسن ظن زیادہ ہوگا اذعانی کیفیت جلد پیدا ہوگی اور احتمالات عقلیہ جلد مقہور ہو جائیںگے اور جس قدر بدگمانی زیادہ ہوگی۔ اس قدر احتمالات عقلیہ زیادہ شورش کریںگے۔ دیکھ لیجئے مرزاقادیانی کو چونکہ اسلاف پر بالکل حسن ظن نہیں۔ اس لئے حدیث وتفسیر میں ایسے ایسے احتمالات عقلیہ پیدا کر دیتے ہیں کہ اب تک کسی مسلمان کو نہیں سوجھے علیٰ ہذا القیاس خان صاحب کا بھی یہی حال ہے۔
	اب مشکل یہ ہے کہ ہم مسلمانوں کی ہدایت پر ہونے کی شناخت حق تعالیٰ نے یہ مقرر کی ہے کہ صحابہ کے سے اعتقاد ہم میں ہوں۔ چنانچہ ارشاد ہے ’’فان آمنوا بمثل ما آمنتم بہ فقد اھتدوا (بقرہ:۱۳۷)‘‘ یعنی حق تعالیٰ صحابہؓ سے مخاطب ہوکر فرماتا ہے کہ اگر تمہاری طرح وہ لوگ بھی ان خبروں پر ایمان لائیں۔ یعنی کامل اعتقاد رکھیں تو وہ ہدایت پر ہیں۔ اب اگر احادیث ساقط الاعتبار کر دئیے جائیں تو کیونکر معلوم ہوکہ صحابہؓ کا اعتقاد کیا تھا۔ مثلاً تمامی کتب اسلامیہ سے ثابت ہے کہ صحابہؓ کا یہی اعتقاد تھا کہ عیسیٰ علیہ السلام زندہ ہیں اور قریب قیامت آسمان سے اتریںگے۔ جس کو ہر زمانے کے محدثین، فقہا، اولیاء اﷲ اور جمیع علماء بیان کرتے اور اپنی تصنیفات میں لکھتے رہے۔ جس پر آج تک کل امت گواہی دے رہی ہے اور ایک روایت بھی کسی کتاب میں نہیں کہ عیسیٰ علیہ السلام مر کر مردوں میں جاملے۔ اس صورت میں اگر تمام کتب ساقط الاعتبار ہوں تو کیونکر معلوم ہو کہ اس مسئلے میں ہم صحابہؓ کے اعتقاد پر ہیں۔
	مرزاقادیانی کی یہ خود غرضی کا نتیجہ ہے کہ تمام امت کے ساتھ بدظنی کی جارہی ہے اور اس تواتر کو اتنی بھی وقعت نہیں دی گئی جو یورپ کے اخبار نویسوں کو دی جاتی ہے۔ جتنا ہندوؤں کے کہنے سے مرزاقادیانی کو کرشن جی پر اعتقاد ہے اس کا ہزارواں حصہ اس مسئلے پر نہیں۔ حالانکہ کروڑہا اکابردین اور مسلمانوں کی شہادت سے ثابت ہے۔

x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 بسم اﷲ الرحمن الرحیم! 1 1
Flag Counter