Deobandi Books

احتساب قادیانیت جلد 21 ۔ غیر موافق للمطبوع - یونیکوڈ

62 - 377
ہوئی۔ورنہ ممکن نہ تھا کہ ان کو نظر انداز کر سکیں۔ جیسے جاپان کی فتح کی خبر کا حال معلوم ہوا۔ الحاصل جن کو اخبار معجزات کی کثرت ذرائع کا علم ہے گوہر ایک معجزے کا تواتر ثابت نہ ہو۔ مگر نفس معجزات کے وقوع کا وہ انکار نہیں کر سکتے اور جس طرح مشاہدے سے یقینی علم ہوتا ہے اسی طرح تواتر سے وقوع معجزات کا ان کو علم ضروری ہوگا۔ عیسیٰ علیہ السلام کی حیات اور نزول کا مسئلہ اسلام میں ایسا ظاہر اور متفق علیہ ہے کہ ابتداء سے اب تک نہ علمائے ظاہر کو اس میں اختلاف ہے نہ اولیاء اﷲکو، قرآن وتفاسیر واحادیث وغیرہ کتب اسلامیہ اس کے ثبوت پر گواہ ہیں۔ مگر مرزاقادیانی باوجود اس تواتر کے اس کا انکار کرتے ہیں۔
	ناظرین کرزن گزٹ پر ظاہر ہے کہ مرزاحیرت صاحب ایک زمانۂ دراز سے مرزاقادیانی کارداس اخبار میں کیا کرتے تھے۔ مگر مرزاقادیانی پر اس کا کچھ اثر نہ تھا۔ آیات واحادیث واقوال میں گفتگو اور ردوقدح برابر کرتے رہے۔ مرزاحیرت صاحب بھی تو آخر مرزا ہیں۔ انہوں نے دیکھا کہ وہ یوں نہ مانیںگے اور عمر بھر باتیں بنائے جائیںگے اور ان کی کج بحثوں سے لوگوں کے خیال میں یہ بات متمکن ہوتی جائے گی کہ مرزاقادیانی کو کوئی قائل نہیں کرسکتا۔ جس سے ان کی حقیقت کا گمان عموماً جاہلوں کو پیدا ہوگا اس لئے انہوں نے ایک ایسے مسئلے میں گفتگو شروع کی کہ عالم سے لے کر جاہل تک کسی کو اس میں اختلاف نہیں اور جس کی واقعیت کا اثر اسلامی دنیا میں یہاں تک ہے کہ ہر سال لاکھوں روپے صرف کئے جاتے ہیں اور اس تواتر کی وجہ سے ہندو بھی مسلمانوں کے ساتھ شریک ہوکر ہزارہا روپے نذر ونیاز میں صرف کرتے ہیں۔ یعنی حضرت امام حسینؓ کی شہادت اور واقعہ کربلا کا انکار رہی کردیا اور عقلی قرائن قائم کر کے بخاری وغیرہ کی معتبر احادیث کو رد کیا اور کل کتب سیر اور تواریخ میںکلام کر کے اس بات میں ان سب کو ساقط الاعتبار کردیا۔ اب ہر چند علمائے شیعہ اور اہل سنت تواتر وغیرہ دلائل پیش کرتے ہیں۔ مگر وہ ایک کی نہیں مانتے اور کج بحثوں سے سب کا جواب دئے جاتے ہیں اور دعویٰ یہ ہے کہ ایک بڑی کتاب کا سامان فراہم کیاگیا ہے۔ اخبار کے دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ جو طریقہ انہوں نے اختیار کیا ہے کہ جس طرح مرزاقادیانی نصوص میں تاویلیں اور تواتر میں کلام کرتے ہیں اور عقل کے زور سے ہر موقع میں کچھ نہ کچھ گھڑ لیتے ہیں وہ بھی وہی کر رہے ہیں۔ اس سے یقین ہوتا ہے کہ جس طرح مرزاقادیانی کی چل گئی ان کی بھی چل جائے گی اور ان کی کتاب بھی مقصود پورا کرنے میں مرزاقادیانی کی ازالۃ الاوہام سے کم نہ ہوگی۔ چنانچہ ابھی سے بعضوں نے ہاں میں ہاں ملادی اور ہم خیال پیدا ہونے لگے۔
	قرینے سے معلوم ہوتا ہے کہ مرزا حیرت صاحب کو اس کتاب کے لکھنے سے یہ ثابت کرنا منظور ہے کہ جب آدمی کج بحثی پر آجائے تو کیسی ہی روشن بلکہ اظہر من الشمس بات کیوں نہ ہو اس پر بھی وہم اور شک کی ظلمت ڈال سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جو لوگ خدائے تعالیٰ ہی کے منکر ہیں برابراہل حق کا مقابلہ کئے جاتے ہیں اور کوئی اثر براہین قاطعہ کا ان کے دلوں پر نہیں پڑتا۔
	مرزاحیرت صاحب نے باوجود اس سخت مقابلے کے جو قادیانی صاحب کے ساتھ ان کو تھا کہ کوئی پرچہ ان کے اخبار کا ایسا نہیں نکلتا تھا۔ جس میں قادیانی صاحب پر سخت حملہ نہ ہوتا۔ یکبارگی ان کا تعقب چھوڑ کر مسئلہ شہادت چھیڑدیا اس میں یہ مصلحت ضرور ہے کہ اس بحث میں بھی روئے سخن قادیانی صاحب ہی کی طرف ہے کہ جس طرح آپ متفق علیہ مسئلہ کا انکار کرتے ہیں۔ ہم بھی اسی قسم کے بلکہ اس سے زیادہ تر روشن مسئلے کا انکار کرتے ہیں۔ اگر تیزی طبع کا کچھ دعویٰ ہے تو میدان میں آکر چون وچرا کیجئے اور جواب لیجئے۔ مگر مرزا قادیانی باوجود اس خصومت کے جو ایک مدت سے چلی آرہی ہے اور باوجود اس دعویٰ کے کہ میں حکم بن کر آیا ہوں اور ایسے امور کے فیصل کرنے کا مامور ہوں۔ تجاہل کر کے خاموش ہوگئے اور یہ غنیمت سمجھا کہ کسی طرح پیچھا تو چھوٹا مگر یادر ہے کہ اس مسئلہ شہادت کااثر مرزاقادیانی کی کارروائیوں پر 
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 بسم اﷲ الرحمن الرحیم! 1 1
Flag Counter