Deobandi Books

احتساب قادیانیت جلد 21 ۔ غیر موافق للمطبوع - یونیکوڈ

61 - 377
کیفیات قلبیہ ابتدائے رویت سے یقین کے پیدا ہونے تک وقتاً فوقتاً بدلتے رہیںگے اور آخر میں یقین کی کیفیت پیدا ہوگی۔
	یہ بات ہر شخص جانتا ہے کہ اس کیفیت یقین پیدا ہونے میں اختیار کو کوئی دخل نہیں۔ اگر آدمی اس وقت خاص میں یہ چاہے بھی کہ یقین پیدا نہ ہو۔ جب بھی پیدا ہو ہی جائے گا۔ چنانچہ اس آیۂ شریفہ سے بھی یہی ثابت ہے۔ ’’فلما جاء تھم ایاتنا مبصرۃ قالوا ھذا سحر مبین وجحدوا بہا واستیقنتہا انفسھم (نمل:۱۳،۱۴)‘‘ یعنی معجزوں کو دیکھ کر گو وہ انکار کرتے تھے۔ مگر یقین ان کو ہو ہی جاتا تھا۔ اسی طرح جب کوئی واقعہ کی خبر آدمی سنتا ہے تو پہلے وہم اس واقعے کے وقوع کا ہوگا۔ پھر جیسے جیسے مختلف ذرائع سے وہ خبر پہنچتی جائے گی۔ شک اور ظن تک نوبت پہنچے گی اور آخر میں جب جانب مخالف کے احتمالات رفع ہوجائیں تو خود بخود یقین پیدا ہو جائے گا۔ جس کے حاصل ہونے پر انسان بالطبع مجبور ہے۔ اس کی توضیح کے لئے یہ مثال کافی ہوسکتی ہے کہ ان دنوں جب اہل اخبار نے جاپان اور روس کے جنگ کا حال لکھنا شروع کیا اور بالآخر جاپان کی فتح کی خبر دی تو جتنے مدارج یہاں ہم نے بیان کئے سب کا وجدان ناظرین اخبار کو ہوگیا ہوگا کہ ابتداًء کسی ایک اخبار میں جب یہ کیفیت دیکھی گئی ہوگی تو وہم پھر بحسب تواتر اخبار شک اور ظن اور یقین ہوگیا ہوگا۔ اب جن لوگوں کو جاپان کی فتح کا یقین ہے۔ اگر ان سے کوئی نہ واقف شخص کہے کہ حضرت کہاں جاپان اور کہاں روس اتنی دور کی ریاستوں میں لڑائی کیسی۔ پھر جاپان کی حیثیت ہی کیا کہ روس سے مقابلہ کر سکے۔ جاپان بے چارہ چین کا ایک صوبہ ہے۔ خود چین روس کے مقابلے کی تاب نہ لاسکا اور بہت سا ملک اس کے حوالے کردیا۔ روس کے کئی صوبے ایسے ہیں کہ جاپان ان کی برابر ی نہیں کرسکتا۔ جیسا کہ جغرافیہ سے ثابت ہے۔ پھر یہ کیونکر تسلیم کیا جائے کہ جاپان نے اس عظیم الشان سلطنت روس کے ساتھ مقابلہ کیا اور فتح بھی پائی۔ عقل اس کو ہرگز قبول نہیں کرسکتی۔ رہی اخبار کی خبریں سو وہ سب محتمل صدق وکذب ہیں۔بلکہ قرائن عقلیہ سے کذب ہی کاپلہ بھاری ہے۔ پھر کوئی اخبار نویس اپنا چشم دید واقعہ بھی نہیں لکھا۔ جس کو ایک گواہ قرار دیں۔ سامع کی گواہی کا اعتبار ہی کیا۔ ہر ایک اخبار دوسرے اخبار سے نقل کرتا ہے۔ جس سے ظاہر ہے کہ سب اخباروں کا مدار ایک اخبار پر ہے۔ جس نے پہلے یہ خبر شائع کی تھی۔ معلوم نہیں اس نے کس مصلحت سے یا لوگوں کی عقل کے امتحان کی غرض سے یہ خبر شائع کی ہو اور اگر بذریعہ تار اس کو خبر پہنچی بھی ہو تو تار میں بھی وہی عقلی احتمالات قائم ہیں۔ الغرض ایسے ایسے قوی احتمالات عقلیہ اور شہادت جغرافیہ کے بعد ہم ہر گز یقین نہیں کر سکتے کہ جاپان اور روس میں جنگ ہوئی اور جاپان نے فتح پائی۔ اب ہم ناظرین اخبار سے پوچھتے ہیں کہ کیا ان احتمالات عقلیہ سے آپ کا وہ یقین جاتا رہے گا جو آپ نے زر خطیر خرچ کر کے بذریعۂ اخبارات حاصل کیا تھا یا ان احتمالات کو آپ لغو اور اس کے قائل کو پاگل سمجھیںگے۔ میرا وجدان تو گواہی دیتا ہے کہ ناظرین اخبار پر ان احتمالات کا ہر گز اثر نہ پڑے گا اور وہ یہی جواب دیںگے کہ جیسے اخبار ابتدائی جنگ سے خاتمہ تک ہم نے دیکھے ہیں جس سے وقتاً فوقتاً قلبی کیفیتیں ہماری بدلتی بدلتی یقین کی کیفیت تک نوبت پہنچتی۔ اگرآپ بھی دیکھتے تو ہرگز یہ احتمالات قائم نہ کر سکتے اور اس تواتر کے مقابلے میں آپ کی عقل خود مقہور ہو جاتی۔ اب اہل انصاف غور کریں کہ باوجود یہ کہ اخبار نویسوں کی نہ دیانت مسلم ہے نہ عدالت، صرف تواتر کی وجہ سے جب ان کی خبر کا یہ اثر ہو کہ عقل مقہور ہو جائے تو اہل اسلام کے نزدیک معجزات کی ہزارہا خبریں ایسے لوگوں کی جن کی دیانت وعدالت بھی ان کے نزدیک مسلم ہے۔ کس درجے قابل وثوق ہونی چاہئے۔ اب دیکھئے کہ جو شخص ان کتابوں کو نہ دیکھ کر احتمالات عقلیہ پیداکرے اس کی بات کو مسلمان لغو سمجھیںگے یا قابل وقعت۔ جو لوگ اس مقام میں احتمالات عقلیہ پیدا کرتے ہیں ان کو معذور سمجھنا جاہئے۔ اس لئے کہ انہوں نے صرف خبر کے معنی کا تصور کر لیا کہ الخبر یحتمل الصدق والکذب  اور ذرائع وصول خبر کی ان کو اطلاع ہی نہیں 
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 بسم اﷲ الرحمن الرحیم! 1 1
Flag Counter