Deobandi Books

احتساب قادیانیت جلد 21 ۔ غیر موافق للمطبوع - یونیکوڈ

60 - 377
جس کا علم ضروری ہے۔ اس لئے کہ ہزار ہا صحابہ نے معجزے دیکھے۔ پھر انہوں نے اپنی اولاد اور شاگردوں سے ان کے حالات بیان کئے پھر وہ کتابوں میں درج ہوئے اور ہر زمانہ اور ہر طبقے کے لوگ اس کثرت سے ان کی گواہی دیتے آئے کہ ان سب کا اتفاق کر کے جھوٹ کہنا عقلاً محال ہے۔ اس وقت لاکھوں کتابیں موجود ہیں۔ جن میں معجزات وخوارق عادات کا ذکر ہے۔ مسلمان تو اس تواتر کا انکار نہیں کر سکتے۔ ممکن ہے کہ دوسرے اقوام اس کا انکار کریں۔ مگر انصاف سے دیکھیں تو ان کو بھی انکار کا حق نہیں۔ اس لئے کہ اتنی کثرت کے بعد عقلاً بھی اس کا انکار نہیں ہوسکتا۔ دیکھئے ہندوؤں سے سنتے سنتے کرشن جی کے وجود کا یقین ہوہی گیا۔ چنانچہ مرزاقادیانی کو کرشن جی بننے کی رغبت اسی تواتر کی وجہ سے ہوئی ورنہ صاف فرمادیتے کہ کرشن جی کیسا اس کا تو وجود ہی ثابت نہیں۔
	اگر مسلمانوں کی کتابیں جھوٹی ٹھہرجائیں تو اپنے اسلاف کے حالات اور ان کے وجود کی خبر دینے والی کون سی چیز ہمارے ہاتھ میں رہے گی۔ کوئی ملت اور دین والا آدمی ایسا نظر نہ آئے گا۔ جو اپنی دینی کتابوں کو جھوٹی قرار دے کر اپنے کو اس دین کی طرف منسوب کرے۔
	جو بات بتواتر پہنچتی ہے۔ اس کو یقین کر لینا آدمی کی فطرتی بات ہے۔ دیکھئے جب بچہ کئی شخصوں کی زبانی سن لیتا ہے۔ یہ تمہارا باپ ہے تو اس کو یقین ہوجاتا ہے۔ جس کے سبب عمر بھر اسے باپ سمجھتا اور کہتا ہے۔ اصل وجہ اس کی یہ ہے کہ آدمی کو حق تعالیٰ نے ایک صفت علم دی ہے۔ جس پر اس کا کمال موقوف ہے۔ علم سے مراد یہاں یقین ہے۔ اگر فرض کیا جائے کہ کسی شخص میں صفت یقین نہ ہو تو وہ پرلے درجے کا پاگل اور احمق ہوگا۔ اس لئے کہ جب اس کو کسی بات کا یقین ہی نہیں ہوتا تو یہ بھی یقین نہ ہوگا کہ میں آدمی ہوں اور نہ کھانے کو یقینا کھانا سمجھے گا۔ جس سے بھوک دفع ہوتی ہے اور نہ پانی کو پانی اور نہ کسی مفید چیز کو مفید سمجھے گا نہ مضر کو مضر۔ غرض کہ کسی چیز کا یقین نہ ہونے کی وجہ سے اس کی زندگی جانورں کی زندگی سے بھی بدتر ہوگی۔ اس لئے کہ آخر جانور اپنے فائدے کی چیز کو مفید سمجھ کر راغب ہوتے ہیں اور مضر کو مضر یقین کر کے اس سے دور ہوتے ہیں۔ الحاصل انسان کو یقین کی صفت ایسی دی گئی ہے کہ اسی کی بدولت ہر ایک کمال حاصل کرتا ہے۔ پھر یقین حاصل ہونے کے چند اسباب قرار دئیے گئے۔ وجدان، مشاہدہ، تجربہ وغیرہ دیکھئے جب آدمی کو بھوک یا پیاس لگتی ہے تو اس کا وجدان گواہی دیتا ہے۔ جس سے یقین ہوجاتا ہے کہ بھوک یا پیاس لگی ہے اور کھانے پینے کی فکر کرتا ہے۔ جس سے بقائے شخصی متعلق ہے۔ اسی طرح کسی کو دیکھنے یا اس کی آواز سننے سے یقین ہوجاتا ہے کہ یہ فلاں شخص ہے۔ ایسا ہی چند بار کسی چیز کو آزمانے سے یقین ہوجاتا ہے کہ یہ ایسی چیز ہے یا اس کی یہ خاصیت ہے۔ اسی طرح جب کوئی بات متعدد اشخاص اور مختلف ذرائع سے سنی جاتی ہے تو اس کے وجود کا یقین ہوجاتا ہے۔ کسی خبر کے سننے سے اکثر وہم کی کیفیت پہلے پیدا ہوتی ہے۔ پھر شک پھر ظن اس کے بعد یقین ہوتا ہے۔ اس مثال سے ان مدارج کی توضیح بخوبی ہوگی کہ جب کوئی شخص دور سے نظر آتا ہے تو پہلے وہم سا ہوتا ہے کہ وہ فلاں شخص ہے۔ مثلاً زید ہوگا پھر وہ جب کسی قدر قریب ہوتا ہے تو ایک شکی کیفیت پیدا ہوتی ہے۔ یعنی زید ہونے اور نہ ہونے کے احتمال برابر برابر ہوںگے اور کسی ایک جانب کو غلبہ نہ ہوگا۔ پھر جب اور قریب ہوتو ایک جانب کو غلبہ ہو جائے گا کہ مثلاً وہ زید ہے۔ مگر ہنوز ایسا یقین نہیں کہ قسم کھا سکیں۔ پھر وہ جب اور نزدیک ہوا اور ایسے مقام تک پہنچا کہ بصارت نے پوری یاری دی اور جتنے احتمالات زید نہ ہونے کے تھے سب رفع ہوگئے۔ اس وقت ابتداء ایک ایسی اذعانی حالت دل میں پیدا ہوگی کہ بے اختیار کہہ اٹھے گا کہ واﷲ یہ تو زید ہی ہے اور اس پر وہ آثار مرتب ہوںگے جو زید کے آنے پر مرتب ہونے والے تھے۔ مثلاً اگر دوست ہو تو استقبال کے لئے دوڑ پڑے گا اور دشمن ہو تو کچھ اور فکر کرے گا۔ بہرحال 
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 بسم اﷲ الرحمن الرحیم! 1 1
Flag Counter