Deobandi Books

احتساب قادیانیت جلد 21 ۔ غیر موافق للمطبوع - یونیکوڈ

6 - 377
	ایک زمانے تک مرزاقادیانی کی نسبت مختلف افواہیں سنی گئیں کوئی کہتا تھا کہ ان کو مجددیت کا دعویٰ ہے کوئی کہتا تھا کہ مہدویت کا بھی دعویٰ ہے۔ کوئی کہتا تھا کہ عیسیٰ موعود بھی اپنے آپ کو کہتے ہیں۔ ان پریشان خبروں سے طبیعت کو کسی قدر پریشانی تو تھی۔ مگر اس وجہ سے کہ آخری زمانے کا مقتضیٰ یہی ہے کہ اس قسم کی نئی نئی باتیں پیدا ہوں طبیعت اس کی تحقیق کی طرف مائل نہ تھی۔ یہاں تک کہ ایک شخص نے بطور ابلاغ پیام ایک اشتہار مجھ کو دکھلایا۔ جس میں ان کو نہ ماننے والوں کی تکفیر تک تھی۔ اس وقت یہ خیال پیدا ہوا کہ آخر اس مذہب کی حقیقت کیا ہے ان کی کسی کتاب سے معلوم کرنا چاہئے۔ چنانچہ تلاش کرنے سے مرزاقادیانی کی تصنیف ’’ازالۃ الاوہام‘‘ ملی اور سرسری طور پر اس کو دیکھا گیا۔ مگر مرزاقادیانی کے فحوائے کلام سے معلوم ہوا کہ جب تک یہ کتاب پوری نہ دیکھی جائے ان کے مذہب کی حقیقت اور ان کا مقصود معلوم نہ ہوگا۔ اس لئے اوّل سے آخر تک اس کو پھر دیکھا اس سے کئی باتیں معلوم ہوئی۔ جن میں سے ایک یہ ہے کہ مرزاقادیانی بڑے عالی خاندان شخص ہیں۔ مختصر حال ان کے خاندان کا یہ ہے کہ ان کے جدا علیٰ بابر بادشاہ کے وقت جو چغتائی سلطنت کا مورث اعلیٰ تھا۔ ثمرقند میں ایک جماعت کثیرہ لے کر دہلی آئے اور بہت سے دیہات بطور جاگیر ان کو دئیے گئے۔ آپ نے وہاں بہت بڑا قلعہ تیار کیا اور ایک ہزار فوج سوار اور پیادے کے ساتھ وہاں رہتے تھے۔ جب چغتائی سلطنت کمزور ہوئی۔ آپ نے ایک ملک پر قبضہ کرلیا اور تو پخانہ وغیرہ فراہم کر کے بطور طوائف الملوک مستقل رئیس ہوگئے۔ مرزاگل محمد صاحب جو مرزاقادیانی کے پردا داہیں انہوں نے سکھوں سے بڑے بڑے مقابلے کئے اور تن تنہا ہزار ہزار سکھوں کے مقابلے میں کامیاب ہوئے۔ مگر مسلمانوں کی بدقسمتی تھی کہ باوجود یہ کہ انہوں نے بہت کچھ کوششیں کیں کہ ایک وسیع ملک فتح کر کے اس کو دار الاسلام بنادیں مگر نہ ہوسکا۔ پھر ان کے فرزند مرزاعطاء محمد صاحب کے عہد ریاست میں سوائے قادیان اور چند دیہات کے تمام ملک قبضے سے نکل گیا اور آخر سکھوں کے جبروتعدی سے اپنا مستقر بھی ان کو چھوڑنا پڑا۔ کئی روز کے بعد مرزاغلام مرتضیٰ صاحب (مرزا قادیانی) کے والد دوبارہ قادیان میں جابسے اور گورنمنٹ برطانیہ کی جانب سے حصۂ جدی سے قادیان اور تین گائوں ان کو ملے اور گورنر کے دربار میں ان کی نہایت عزت تھی۔ چنانچہ ان کی دربار میں ان کو کرسی ملتی تھی اور غدر میں پچاس گھوڑے اپنی ذات سے خرید کر کے اور اچھے اچھے سوار مہیا کر کے پچاس سوار سے گورنمنٹ کے اعلیٰ حکام بلکہ صاحبان ڈپٹی کمشنر اور کمشنر ان کے مکان پر آتے تھے۔ پھر ان تاریخی واقعات کو بیان کر کے مرزاقادیانی فرماتے ہیں کہ اس تمام تقریر سے ظاہر ہے کہ یہ خاندان ایک معزز خاندان ہے۔ جو شاہان سلف کے زمانے سے آج تک کسی قدر عزت موجود رکھتا ہے۔
	اس تقریر سے واضح ہے کہ مرزاقادیانی ایک اولوالعزم شخص خاندان سلطنت سے ہیں اور صرف ایک ہی پشت گذری ہے جو یہ دولت ہاتھ سے جاتی رہی۔ جس کی کمال درجے کی حسرت ہونی ایک لازمۂ بشری ہے۔ چونکہ متقضأفطانت ذاتی کا یہی تھا کہ مجد موثل کی تجدید ہو اسلئے ایک نئی سلطنت کی انہوں نے بنیاد ڈالی۔
	یہ بات قابل تسلیم ہے کہ شاہی خاندان کے خیالات خصوصاً ایسی حالت میں کہ طبیعت بھی وقار ہو اور ذہن کی رسائی بھی ضرورت سے زیادہ ہو کبھی گوارا نہیں کر سکتی کہ آدمی حالت موجود پر قناعت کرے۔ (بخاری شریف ج۱ ص۴۱۲، باب ھل یرشد المسلم اھل الکتاب او یعلمہم الکتاب) میں مروی ہے کہ جب ہدایت نامہ آنحضرتﷺ کا ہرقل پادشاہ روم کو پہنچا تو اس نے ابوسفیان وغیرہ کو جو وہاں موجود تھے۔ بلاکر حضرتؐ کے بہت سے حالات دریافت کئے۔ منجملہ ان کے ایک یہ بھی سوال تھا کہ آپؐ کے اجداد میں کوئی بادشاہ بھی گذرا ہے۔ انہوں نے کہا نہیں تو اس نے کہا میں 
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 بسم اﷲ الرحمن الرحیم! 1 1
Flag Counter