Deobandi Books

احتساب قادیانیت جلد 21 ۔ غیر موافق للمطبوع - یونیکوڈ

57 - 377
بڑا قرینہ ہاتھ آگیا کہ مرزاقادیانی کے جتنے معنوی دعویٰ مثلاً فنا فی اﷲ اور فنا فی الرسول وغیرہ ہیں۔ سب اسی قسم کے ہیں جو کتابوں سے دیکھ دیکھ کر لکھ لئے گئے ہیں۔
	مرزاقادیانی (ازالۃ الاوہام ص۲۹۶ حاشیہ، خزائن ج۳ ص۲۵۱) میں لکھتے ہیں کہ ’’عیسیٰ علیہ السلام کے معجزات متشابہات میں داخل ہیں۔‘‘ اس سے مقصود یہ کہ انکا اعتقادکرنیکی ضرورت نہیں۔ مگر دراصل یہ بات نہیں بلکہ جو امور خدائے تعالیٰ کی ذات وصفات سے متعلق قرآن میں ایسے ہیں۔ جن کا سمجھنا غیر ممکن یا دشوار ہے۔ ان پر ایمان لانے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ حق تعالیٰ متشابہات کے باب میں فرماتا ہے۔ ’’والراسخون فی العلم یقولون اٰمنا بہ (آل عمران:۷)‘‘ مسئلہ استواء علی العرش میں سلف صالح سے مروی ہے کہ ’’الاستواء معلوم والکیفیۃ مجہولۃ والسوال بدعۃ‘‘ یعنی نفس استواء بلاکیف پر ایمان لانا ضرور ہے۔ ابراء اکمہ وابرص اور احیاء باذن اﷲ وغیرہ معجزات میں کوئی ایسی بات نہیں جو سمجھ میں نہ آئے۔ جتنے بیمار طبیبوں کے علاج سے اچھے ہوتے ہیں۔ آخر باذن اﷲ ہی اچھے ہوا کرتے ہیں۔ اسی طرح اکمہ ادرابرص بھی اچھے ہوتے تھے اور مسمریزم سے تحریک ہوا ہی کرتی ہے۔ رہ گیا جان ڈالنا سو وہ بھی کوئی بڑی بات نہیں۔ خدائے تعالیٰ ہمیشہ اجسام میں جان ڈالتا ہی ہے۔ جس سے مرزاقادیانی کو بھی انکار نہ ہوگا۔ البتہ اس قدر نئی بات ہوئی کہ عیسیٰ علیہ السلام نے بھی قم باذن اﷲ وغیرہ کہہ دیا ہوگا۔ پھر اس سے خدا کی قدرت میں کون سی نئی بات پیدا ہوگئی تھی کہ نعوذ باﷲ صفت احیاء معطل ہوگئی یا ان مردوں میں صفت عصیان پیدا ہوگئی تھی کہ خدا کے اذن سے بھی ان کو جنبش نہ ہوئی۔ یہ اعتقاد مشرکوں کے اعتقاد سے بھی بدتر ہے۔ کیونکہ مشرک بھی خدائے تعالیٰ کو خالق عالم اور متصرف سمجھتے ہیں۔ ’’ولئن سالتھم من خلق السموات والارض لیقولن اﷲ (لقمان:۲۵)‘‘ ’’ولئن سالتہم من نزّل من السماء مائً فاحیا بہ الارض بعد موتہا لیقولن اﷲ (عنکبوت:۶۳)‘‘
	اب اس کے بعد قابل غور یہ بات ہے کہ مرزاقادیانی (ضرورۃ الامام ص۱۳، خزائن ج۱۳ ص۴۸۳) میں لکھتے ہیں کہ ’’خداتعالیٰ کسی قدر پر دہ اپنے پاک اور روشن چہرے سے اتار کر ان سے باتیں کرتا ہے اور بعض وقت ٹھٹے کرتا ہے۔‘‘ کسی کو اس میں شبہ نہیں کہ وجہ اور یدوغیرہ متشابہات سے ہیں۔ مگر مرزاقادیانی کو اس کے سمجھنے بلکہ دیکھنے میں ذرا بھی تامل نہ ہوا اور عیسیٰ علیہ السلام کے معجزات کو صحابہ کے زمانے سے اب تک کسی نے متشابہ نہیں کہا اور نہ کسی حدیث میں یہ مذکور ہے۔ نہ عقل ان کے سمجھنے سے قاصر ہے۔ ان کو خود غرضی سے متشابہ میں داخل کر رہے ہیں عجیب بات ہے۔
	تمام روئے زمین پر جو اقوام بستے ہیں۔ ان میں تقریباً کل مسلمان، یہود ،نصاریٰ، بت پرست اور مجوس ہیں۔ یہ سب خوارق عادات کے قائل ہیں۔ چنانچہ ہر ایک اپنے اپنے پیشوایان قوم کے کارنامے عجیب وغریب بیان کرتے ہیں۔ جن کا وقوع آدمی کی عقل اور قدرت سے خارج ہے اور بن مانسوں کے جیسے تھوڑے لوگ ہوںگے۔ جو اس کے قائل نہیں۔ اگر فلاسفہ خوارق عادات کے قائل نہ ہوتے تو چنداں مستعبد نہ تھا۔ اس لئے کہ خلاف عقل اور خلاف طبیعت بات کو وہ جائز نہیں رکھتے مگر آخر عقلاء ہیں۔ دیکھا کہ معجزات انبیاء کے بتواتر ثابت ہے اور تواتر سے جو علم حاصل ہوتا ہے۔ وہ بدیہی ہوتا ہے۔ جس کا انکار اعلیٰ درجے کی حماقت ہے اس لئے انہوں نے بڑے شدومد سے وقوع خوارق کو مدلل کیا۔ چنانچہ اشارات وغیرہ میں اس کے دلائل مذکور ہیں۔
	اس آخری دور میں سر سید احمد خاں کسی مصلحت سے اسلام کی بیخ کنی کی طرف متوجہ ہوئے اور یہ دعویٰ کیا کہ اسلام کوئی معیّن دین کا نام نہیں۔ بلکہ وہ مفہوم کلی ہے۔ جو ہردین پر صادق آتا ہے۔ اس کے لئے نہ خدا کے ضرورت ہے نہ نبی کی۔ چنانچہ تہذیب الاخلاق میں لکھتے ہیں کہ 
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 بسم اﷲ الرحمن الرحیم! 1 1
Flag Counter