Deobandi Books

احتساب قادیانیت جلد 21 ۔ غیر موافق للمطبوع - یونیکوڈ

55 - 377
بغیر ارادے کے اگر قدرت کام کرنے لگے تو چونکہ آدمی میں ہر کام کی قدرت ہے تو چاہئے کہ ہر کام ہر وقت ہونے لگے اور آدمی کو دم بھر کی فرصت نہ لینے دے۔ جس سے آدمی دیوانہ مشہور ہوجائے۔ پھر ارادہ بغیرعلم کے نہیںہوتا۔ ورنہ مجہول مطلق کی طرف طلب لازم آئے گی جو محال ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ تحریک عضلات وغیرہ میں صرف قدرت بیکار ہے۔
	اب یہاں یہ دیکھنا چاہئے کہ فعل کے وقت تحریک عضلات وغیرہ جو ہوتی ہے وہ خود بخود ہوتی ہے یا ہمارے ارادے سے یا خدائے تعالیٰ کے ارادے اور خلق سے چونکہ یہ ثابت ہے کہ کسی چیز کا وجود بغیر موجد کے نہیں ہوسکتا۔ اس لئے خود بخود عضلات وغیرہ کی حرکت باطل ہے اور تقریر سابق سے ثابت ہے کہ ہمارے ارادے سے بھی حرکت نہیں ہوتی تو وہی تیسری صورت باقی رہ گئی کہ حق تعالیٰ اعصاب وغیرہ میں حرکت پیدا کردیتا ہے۔ یعنی خود حرکت دیتا ہے اور وہ کام وجود میں آجاتا ہے اور یہی ہونا بھی چاہئے۔ اس لئے کہ وہ حرکت ممکن ہے اور ممکن کے احد الجانبین کو ترجیح دے کر اس کو واجب بالغیر بنانا حق تعالیٰ ہی کا کام ہے۔
	الحاصل فعل کے سلسلے میں ہاجس سے لے کر وقوع فعل تک کوئی درجہ ایسا نہیں نکلتا۔ کہ اس میں حق تعالیٰ کا تصرف نہ ہو۔ اس سے ثابت ہے کہ جس طرح آدمی کی ذات وصفات مخلوق الٰہی ہیں اس کے جملہ حرکات وسکنات وافعال بھی مخلوق الٰہی ہیں۔ جیسا کہ خود حق تعالیٰ فرماتا ہے۔ ’’واﷲ خلقکم وما تعملون (صافات:۹۶)‘‘ اور حدیث شریف میں یہ دعا وارد ہے۔ ’’اللہم ان قلوبنا وجوارحنا بیدک لم تملکنا منہا شیئاً فاذا فعلت ذلک بہما فکن انت ولیہما (کنز العمال ج۲ ص۱۸۲، حدیث نمبر۴۴۶۳)‘‘ یعنی الٰہی ہمارے دل اور ہاتھ پاؤں وغیرہ جوارح تیرے ہاتھ میں ہیں۔ ان میں سے کسی کا مالک ہم کو تو نے نہیں بنایا۔ جب یہ معاملہ تو نے ہمارے ساتھ کیا تو اب تو ہی ہمارے کاموں کا ولی ہوجا۔ اس سے ظاہر ہے کہ ہمارے تصرف اور افعال جن کو ہم اپنے اختیار اور قدرت کا نتیجہ سمجھتے ہیں ان میں سوائے ایک توجہ خاص کے ہمارا کوئی دخل نہیں اور اس کا بھی مدار خدائے تعالیٰ کے ارادے اور خلق ہی پر ہے اور وہ توجہ انہیں اعضاء سے متعلق ہوتی ہے۔ جن کی حرکت سے ہمارے اغراض متعلق ہیں اور بعض اعضاء ہم میں ایسے بھی ہیں کہ کتنی ہی توجہ کیجئے متحرک نہیں ہوتے اور بعض کبھی متحرک ہوتے ہیں اور کبھی نہیں اور بعض کے لئے ایک حد مقرر ہے۔ اس سے زیادہ حرکت نہیں ہوسکتی۔ بہرحال جس قدر ضرورت تھی حق تعالیٰ نے ہمارے جسم پر ہم کو ایک قسم کا تصرف دیا۔ جس کی کیفیت اور حقیقت خود ہمیں معلوم نہیں۔ مگر اس بات کا یقین بھی ہوتا ہے کہ افعال ہمارے ہی اختیار سے وجود میں آتے ہیں۔ بلکہ اپنی دانست اور وجدان میں ایک قسم کی تکوین ہم اس کو سمجھتے ہیں۔
	چونکہ حق تعالیٰ کو منظور تھا کہ اپنے رسول سب میں بحسب شرافت ذاتی ممتاز رہیں اور ان کا دباؤ دلوں پر پڑے۔ جیسا کہ ارشاد ہے۔ ’’وما نرسل بالایات الا تخویفاً (بنی اسرائیل۔۵۹)‘‘اس لئے ان کو یہ نشانی دی گئی کہ عالم میں تصرف کریں اور تصرف کی وہی صورت کہ ادھر ان کی توجہ خاص ہوئی اور ادھر وقوع منجانب اﷲ ہوگیا۔ جیسے ہمارے افعال اختیاری میں ہوا کرتا ہے۔ پھر جو مرزاقادیانی (ازالۃ الاوہام ص۲۹۸ حاشیہ، خزائن ج۳ ص۲۵۲) میں لکھتے ہیں کہ ’’اگر خدا تعالیٰ اپنے اذن اور ارادے سے اپنی خدائی کی صفتیں بندوں کو دے سکتا ہے۔ تو بلاشبہ وہ اپنی ساری صفتیں خدائی کی ایک بندے کو دے کر پورا خدا بناسکتا ہے۔‘‘ اس سے ظاہر ہے کہ ہرچند وہ مسلمان خاندان میں پیدا ہوئے۔ مگر نہ ان کو مسلمانوں کے عقیدے کی خبر ہے نہ قرآن کی سمجھ اتنا بھی نہیں جانتے کہ نشانی دینا کسے کہتے ہیں اور خدا بنا دینا کیسا ہوتا ہے اور اگر جانتے ہیں تو خود غرضی سے خدائے تعالیٰ کے کلام کی تکذیب کرنا جانتے ہیں۔ حق تعالیٰ صاف فرماتا ہے۔ ’’واتینا عیسیٰ ابن مریم البینات (بقرہ:۲۵۳)‘‘ یعنی عیسیٰ کو ہم نے کھلی کھلی نشانیاں دیں۔ وہ کہتے ہیں کہ خدا کسی کو ایسی 
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 بسم اﷲ الرحمن الرحیم! 1 1
Flag Counter