Deobandi Books

احتساب قادیانیت جلد 21 ۔ غیر موافق للمطبوع - یونیکوڈ

54 - 377
جس سے وہ عضو کھنچتا ہے۔ ہم یقینا کہتے ہیں کہ کوئی ان امور کی خبر اپنے وجدان سے ہرگز دے نہیں سکتا اور ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ کسی کو اس کی بھی خبر نہیں کہ اعصاب وغیرہ کو حرکت میں دخل بھی ہے یا نہیں۔ ہاں اتنا تو معلوم ہوتا ہے کہ ہم فلاں عضو کو حرکت دینا چاہتے ہیں۔ پھر ہوتا یہ ہے کہ ادھر خاص قسم کی توجہ ہوئی اور ادھر اس کو حرکت ہوگئی۔ یہاں یہ کہنا بے موقع نہ ہوگا کہ عضلہ وغیرہ کو حرکت دینا بھی ہمارے اختیار سے خارج ہے۔ کیونکہ اختیاری حرکت ہوتی تو اس کا علم وارادہ ہوتا اور یہ نہیں کہہ سکتے کہ عضو کی حرکت کا ارادہ بعینہ عضلہ وغیرہ کی حرکت کا ارادہ ہے۔ اس لئے کہ جب ہمارے وجدان ہی میں نہیں کہ عضلہ وغیرہ کوئی چیز بھی ہے تو پھر یہ کیونکر کہہ سکتے ہیں کہ اس کی حرکت کا ارادہ ہوا پھر جب بحسب تحقیق اطباء یہ ثابت ہے کہ بغیر عضلات وغیرہ کی حرکت کے کوئی عضو حرکت نہیں کر سکتا تو ضرور ہوا کہ وہی ملتفت الیہ بالذات ہوں۔ گو مقصود بالذات ان کی حرکت نہ ہو۔ حالانکہ ملتفت الیہ بالذات بھی عضو ہی کی حرکت ہے۔ یہ عموماً اعضاء کی حرکت اور افعال کا حال تھا۔ اب آنکھوں کے فعل کا حال سنئے کہ دیکھنے کے وقت حدقوں کو ایک مناسبت کے ساتھ پھیرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس وجہ سے کہ جب تک خطوط شعاعی دونوں آنکھوں کے مرئی پر ایسے طور پر نہ ڈالے جائیں کہ جن کے باہم ملنے سے وہاں زاویہ پیدا ہو وہ شیٔ ایک نظر نہ آئے گی۔ کیونکہ ہر ایک آنکھ مستقل طور پر دیکھتی ہے۔ اسی وجہ سے احول دودیکھتا ہے پھر دو نوںخط کے ملنے سے شئے مرئی پر جو زاویہ پیدا ہوتا ہے۔ جس قدر کشادہ ہوگا مرئی بڑی نظر آئے گی اور جس قدر تنگ ہوگا۔ چھوٹی نظر آئے گی اسی وجہ سے ہرچیز نزدیک سے بڑی اور دور سے چھوٹی نظر آتی ہے۔ اس کی تفصیل ہم نے کتاب العقل میں کسی قدر شرح وبسط سے لکھی ہے۔ یہاں صرف اسی قدر بیان کرنے کی ضرورت ہے کہ جب مرئی کے ایک نظر آنے کا مدار خطوط شعاعی کے ملنے پر ہے تو مرئی جس قدر دور یا نزدیک ہوتی جائے گی۔ حدقہ کی وضع بدلتی جائے گی۔ یہاں تک کہ جب وہ بہت ہی نزدیک ہوجائے گی۔ تو حدقے ناک کی جانب قریب ہوجائیںگے اور بہت دور ہوتو کانوں کی جانب مائل ہوںگے۔ اب ہم دیکھنے والوں سے پوچھتے ہیں کہ ہر ایک گزیا ہاتھ کے فاصلے پر حدقے کو کس قدر مائل کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کو اپنے وجدان میں سوچیں اور اگر وجدان یاری نہ دے تو کسی حکیم کی تقریر سے ثابت کریںکہ اس قدر فاصلے پر کوئی چیز ہوتو حدقوں کو اس وضع پر رکھنا چاہئے اور اس قدر فاصلے پر اتنی حرکت دینی چاہئے یہ بات یاد رہے کہ کوئی حکیم اس کا اندازہ ہرگز نہیں بتاسکتا۔ حالانکہ ہم جب کسی چیز کو دیکھنا چاہتے ہیں تو بغیر اس کے کہ ہم کو اس کا طریقہ معلوم ہو یہ سب کچھ ہو جاتا ہے۔ ادھر ہماری خاص توجہ ہوئی۔ ادھر حدقوں نے اپنے موقع پر آکر شست جمالی اور ہم کو خبر بھی نہ ہوئی کہ یہ کام کس نے کیا۔ علیٰ ہذا القیاس بات کرنے کے وقت حلق زبان وغیرہ کے عضلات کو کھینچنا اور ڈھیلے چھوڑنا اور مخرج پر جلد جلد لگانا بغیر اس علم کے کہ کہاں کون عضلہ کھینچا جاتا ہے اور ڈھیلا چھوڑا جاتا ہے اس پر دلیل واضح ہے کہ ہمارے اختیار کو اس میں کچھ دخل نہیں ادھر بات کی طرف توجہ خاص ہوئی اور ادھر زبان کی حرکت اور موقع موقع پر جہاں لگنا ہے۔ شروع ہوگیا اگر کہا جائے کہ یہ افعال طبیعت سے صادر ہوتے ہیں تو ہم کہیں گے کہ حکماء نے اس کی بھی تصریح کردی ہے کہ طبیعت محض بے شعور ہے۔ پھر اس کو یہ خبر کیونکر ہوتی ہے کہ نفس فلاں قسم کا کام کرنا چاہتا ہے اور فلاں چیز کو دیکھنا چاہتا ہے اور وہ چیز اس قدر فاصلے پر ہے اور نفس نے فلاں عبارت کو پڑھنا چاہا اور اگر نفس طبیعت کو یہ سب بتادیتا ہے تو اوّل تو یہ خلاف وجدان ہے اور اگر بالفرض تسلیم بھی کرلیا جائے تو خلاف تحقیق حکماء ہے اس لئے کہ ان کے نزدیک نفس جزئیات مادیہ کا ادراک نہیں کرسکتا اور جتنے عضلات اور اوتار وغیرہ ہیں سب جزئیات مادیہ ہیں۔ پھر ان مادیات کا ادراک اس کو کیونکر ہوسکتا ہے۔ اگر کہا جائے کہ آدمی کی قدرت یہ سب کام کر لیتی ہے تو ہم کہیںگے کہ قدرت ارادے کے تابع اور ارادہ علم کے تابع ہے۔ جب تک کسی چیز کا علم نہیں ہوتا اس کا ارادہ نہیں ہوسکتا اور جب تک ارادہ نہ ہو قدرت کچھ کر نہیں سکتی۔ کیونکہ 
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 بسم اﷲ الرحمن الرحیم! 1 1
Flag Counter