Deobandi Books

احتساب قادیانیت جلد 21 ۔ غیر موافق للمطبوع - یونیکوڈ

53 - 377
	الحاصل بدلائل یہ ثابت ہے کہ جو خیال آدمی کو آتا ہے اس کا خالق حق تعالیٰ ہی ہے۔ اس سے بڑھ کر کیا ہوکہ خود حق تعالیٰ فرماتا ہے۔ ’’واسر واقولکم اواجھروا بہ انہ علیم بذات الصدور الایعلم من خلق (ملک:۱۳،۱۴)‘‘ یعنی خواہ تم آہستہ کوئی بات کہو یا باآواز بلند خدائے تعالیٰ تو اس بات کو بھی جانتا ہے جو سینوں میں چھپی ہوئی ہے۔ کیا ممکن ہے کہ جس نے اس کو پیدا کیا وہ نہ جانے اس سے ثابت ہے کہ دل میں بات کا پیدا کرنا خدا ہی کا کام ہے۔ مولانائے روم فرماتے ہیں۔
ہمچناں کزپردۂ دل بے کلال
ومبدم درمی رسد خیل خیال
گرنہ تصویرات ازیک مغرس اند
درپیٔ ہم سوئے دل چوں میرسند
	پھر اس خیال کا باقی رکھنا حق تعالیٰ ہی کا کام ہے۔ ممکن تھا کہ جیسے اس ہاجس کو خیال سابق کی جگہ قائم کیا تھا اس کی جگہ دوسرے خیال کو قائم کردیتا۔ پھر احد الجانبین کی ترجیح بھی منجانب اﷲ ہی ہے۔ اس لئے کہ حدیث نفس کے وقت جو منافع ومضار کی وجہ سے تردد تھا۔ اس کا منشاء ہم وعزم کی حالت میں بھی موجود ہے۔ باوجود اس کے عزم کی کیفیت جدیدہ کا ابتداً موجود ہونا بغیر موجد کے ممکن نہیں۔ غرض خیال کے ابتدائی وجود سے آخری درجۂ عزم تک جتنے مدارج ہیں۔ یعنی ہاجس، خاطر، حدیث نفس، ہم اور عزم سب بخلق الٰہی ہیں۔ کسی درجے میں آدمی کے فعل کو دخل تام نہیں۔ پھر عزم سے متصل فعل شروع ہوتا ہے۔ اس کی کیفیت حکماء کے نزدیک یہ ہے جس کو شیخ نے قانون میں لکھا ہے کہ حرکت ارادی جو اعضاء سے متعلق ہے۔ اس کی تکمیل اس قوت سے ہوتی ہے جو دماغ سے بواسطہ اعصاب اعضاء میں پہنچتی ہے۔ اس کی صورت یہ ہے کہ عضلات جو اعصاب ورباطات وغیرہ پر مشتمل ہیں۔ جب سمٹ جاتے ہیں تو وتر جو رباطات واعصاب سے ملتمٔ اور اعضاء میں نفوذ کئے ہوئے ہیں۔ کھنچ جاتا ہے۔ جس سے عضو کھنچ جاتا ہے اور جب عضلہ منبسط ہوتا ہے تو وتر ڈھیلا ہوجاتا ہے اور عضو دور ہوجاتا ہے۔ اس تقریر سے معلوم ہوا کہ جب نفس کسی ادراک کے بعد کسی کام کا ارادہ کرتا ہے تو عضلات کشش وغیرہ دیکھ کر کسی خاص وتر کے ذریعے سے جس عضو کو چاہتا ہے ایک خاص طور پر حرکت دیتا ہے۔
	حکماء نے تصریح کردی ہے کہ عضلات آدمی کے جسم میں پانچ سو انتیس اور اعصاب ستتر ہیں۔ یہاں یہ امر قابل غور ہے کہ نفس کو سرسے پاؤں تک جس عضو کو حرکت دینی ہو پانسو انتیس عضلات اور ستتر اعصاب سے اس عضلہ اور اس عصب وغیرہ کو پہلے معین کر لے اور جو اس مقصود بالحرکت عضو سے متعلق ہے۔ کیونکہ جب تک وہ خاص عضلہ اور عصب وغیرہ معین نہ ہوا اور کیف ما اتفق حرکت دے تو بارہا ایسا اتفاق ہوگا کہ ہاتھ کو حرکت دینا چاہیں تو کبھی پاؤں کبھی آنکھ وغیرہ حرکت کرنے لگیںگی اور عضلات واعصاب وغیرہ کا معین کرنا اس بات پر موقوف ہے کہ پہلے تمام عضلات واعصاب وغیرہ کو معین طور پر جان لے کہ فلاں عصب اور وتر فلاں مقام سے جدا ہوکر فلاں انگلی تک مثلاً پہنچا ہے۔ اس کی مثال بعینہ ایسی ہے کہ جہاں کئی ایک تار اکٹھا ہوتے ہیں تو ان تمام دن میں سے اس تار کو معین کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ جو اس مقام سے مختص ہو۔ جہاں خبر بھیجی جاتی ہے اس موقع میں عقلاء جس عضو کو چاہیں بکرات ومرات حرکت دے کر غور وتعمق نظر سے کام لے کر اپنے وجدان کی طرف رجوع کریں کہ اس اختیاری حرکت کے وقت کوئی عضلہ یا وتر یا عصب کی طرف اپنے نفس کو توجہ بھی ہوتی ہے یا اندر کوئی عضلہ یا وتر وغیرہ بھی وجدان سے دکھائی دیتا ہے یا یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہم کسی چیز کو کھینچتے ہیں۔ 
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 بسم اﷲ الرحمن الرحیم! 1 1
Flag Counter