Deobandi Books

احتساب قادیانیت جلد 21 ۔ غیر موافق للمطبوع - یونیکوڈ

52 - 377
تفاوت ہے۔ مثلاً کوئی بہت دور سے باریک چیز کو صاف دیکھتا ہے اور کوئی نزدیک سے موٹی چیز کو بھی پورے طور پر نہیں دیکھ سکتا۔ مگر بصیر دونوں کو کہیںگے۔ اسی طرح ہر شخص کو کچھ نہ کچھ تصرف بھی دیاگیا ہے۔ کسی کو اپنے گھر پر کسی کو محلے پر کسی کو شہر پر کسی کو ملک واقلیم پر پھر تصرف بھی اقسام کے ہیں۔ کوئی اقلیم میں ایسا تصرف کرتا ہے جو دوسرا اپنے گھر میں بھی نہیں کر سکتا۔ پھر جیسے حکام ظاہر پر تصرف کرتے ہیں اسی طرح طبیب اور عامل آدمی کے باطن میں تصرف کرتے ہیں۔ جس کے آثار ظاہر جسم پر نمایاں ہوتے ہیں۔ اسی طرح مسمریزم والا روح پر ایسا تصرف کرتا ہے کہ شخص معمول غیب کی خبریں دینے لگتا ہے اور ساحرار واح خبیثہ پر تصرف کر کے نادر امور ظاہر کرتا ہے جو ان ارواح کے تحت تصرف ہیں۔ غرض حق تعالیٰ نے جس کو جس قدر قوت تصرف عطاء کی ہے وہ اپنے مقدورات میں اس کو پورے طور پر استعمال کرتا ہے۔ اگر اختیاری تصرف مطلقاً شرک ہوتو کوئی شخص اس قسم کے شرک سے بچ نہ سکے گا۔ اگر غور سے دیکھا جائے تو معلوم ہو کہ مخلوق کے کل تصرفات کا مدار حق تعالیٰ کی خلق پر ہے۔ ممکن نہیں کہ کوئی شخص اپنے تصرف سے کوئی چیز یا کوئی اثر پیدا کرلے۔ غایۃ الامریہ ہے کہ عادت کی وجہ سے آدمی اپنا تصرف خیال کرتا ہے۔ حالانکہ درحقیقت وہ بھی تصرف الٰہی ہے۔ اس صورت میں کیا ہی خارق العادت تصرف فرض کیا جائے وہ تصرف الٰہی سے خارج نہیں ہوسکتا۔ بلکہ معمولی تصرفات مخلوق جب تصرف الٰہی سمجھے جائیں تو خارق العادت تصرف بطریق اولیٰ تصرف الٰہی سمجھا جائے گا۔ غرض مسلمانوں کے عقیدے میں جب یہ توحید جمی ہوئی ہے توان کے پاس شرک آنے ہی نہیں پاتا۔ البتہ جو لوگ مخلوق کو مستقل فی التصرف سمجھتے ہیں ان کے مشرک ہونے کے لئے خارق العادت تصرف کی کوئی ضرورت نہیں۔ روزمرہ معمولی تصرفات ہی ان کو مشرک بنانے کے لئے کافی ہیں۔
	اب ہم اس تصرف کا حال کسی قدر بیان کرتے ہیں۔ جس کو ہر شخص اپنے وجدان سے اپنی طرف منسوب کرتا ہے اور یقینا سمجھتا ہے کہ یہ کام میں نے اپنے ارادے اور قدرت سے کیا، یہ بات ظاہر ہے کہ جب آدمی کسی کام کا ارادہ کرتا ہے تو پہلے اس کام کا خیال آتا ہے۔ جس کو ہاجس کہتے ہیں۔ قبل اس خیال کے آدمی اس سے غافل رہتا ہے۔ یعنی اس خیال کے آنے سے پہلے آدمی میں وہ خیال نہیں ہوسکتا ورنہ تقدم الشے علی نفسہ لازم آئے گا جو محال ہے۔ بسااوقات آدمی کسی کام میں مشغول رہتا ہے بلکہ چاہتا ہے کہ کوئی خیال نہ آئے۔ مگر وہ تو آہی جاتا ہے اور خبر تک نہیں ہوتی کہ کیونکر آگیا۔ پھر جب وہ نیا خیال آتا ہے تو پہلے سے جو خیال دل میں موجود رہتا ہے۔ اس کو ہٹا کہ آپ اس کی جگہ قائم ہو جاتا ہے۔ اگرچہ کبھی اس خیال کے اسباب ظاہراً موجود ہوتے ہیں۔ مثلاً کسی چیز کو دیکھنا یا سننا وغیرہ۔ مگر وہ خیال تو آخر عدم ہی سے وجود میں آکر نہانخانۂ دل میں جلوہ گر ہوتا ہے۔ یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ وجود سے وجود میں آیا جو تحصیل حاصل اور محال ہے۔ پھر اس معدوم کو وجود دینا نہ شرعاً مخلوق سے ہوسکتا ہے نہ عقلاً۔ اگر اس ہاجس کا وجود آدمی کے اختیار میں ہوتو اوّل یہ لازم آئے گا کہ انسان بھی کسی معدوم شیٔ کو پیدا کرتا ہے۔ حالانکہ وہ بدیہی البطلان ہے اور قطع نظر اس کے اگر وہ اختیاری ہوتو ہر مثل اختیاری کے وجود سے پہلے اس کا علم پھر ایجاد کا ارادہ پھر عزم شرط ہے۔ حالانکہ ابھی معلوم ہوا کہ وہ یکایک عدم سے وجود میں آتا ہے اور اگر اس کا علم وارادہ پہلے سے موجود ہوتو اس میں بھی یہی کلام ہوگا کہ ان کا وجود ابتدائً ہوا یا ان کا بھی پہلے سے علم وغیرہ تھا۔ یہاں تک کہ امور موجودہ واقعیہ میں تسلسل لازم آئے گا جو باطل ہے۔ اس سے ثابت ہے کہ اس صورت خیالیہ کا وجود آدمی کے اقتدار واختیار سے خارج اور خاص موجد حقیقی کے اختیار میں ہے۔ جس نے اس کو وجود عطاء کر کے آدمی کے دل میں جگہ دی اور اس کے تو حکماء بھی قائل ہیں کہ مؤثر حقیقی تمام اشیاء میں حق تعالیٰ ہے۔ جیسا کہ علامۂ صدر الدین شیرازیؒ نے اسفار اربعہ میں لکھا ہے ’’وقول المحققین منہم ان المؤثر فی الجمیع ہو اﷲ بالحقیقۃ‘‘

x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 بسم اﷲ الرحمن الرحیم! 1 1
Flag Counter