Deobandi Books

احتساب قادیانیت جلد 21 ۔ غیر موافق للمطبوع - یونیکوڈ

51 - 377
لگاسکے کہ حضرتؐ نے اپنی عقل سے کام لیاتھا۔ جب ایسی ایسی خارق العادت کھلی کھلی قدرتی نشانیاں دیکھ کر بھی پھر اور نشانیاں کفار نے طلب کیں تو حکم الٰہی ہوگیا کہ بس اب ان سے کہہ دیا جائے کہ جو نشانیاں دی گئی تھیں وہ میں نے تمہیں دکھلادیں۔ مجھے کوئی ضرورت نہیں کہ تمہاری منہ بولی نشانیاں بھی دکھلایا کروں۔ البتہ ان کو اس قدر حق تھا کہ انصاف کی رو سے یہ شبہ پیش کرتے کہ جتنی نشانیاں دکھلائی گئیں ان کے آسمانی ہونے میں تأمل ہے۔ مگر ممکن نہ تھا کہ اس قسم کا شبہ پیش کرسکتے۔ ہاں بے ایمانی اور قصور عقل سے ساحر اور شاعر کہتے تھے۔ اس لئے کہ ان کی طبیعتوں میں متمکن تھا کہ جو خلاف عقل کام ہو وہ سحر ہے۔ چنانچہ جب ان سے قیامت کا حال بیان کیا جاتا کہ تم مرکر پھر اٹھوگے تو یہی کہتے کہ یہ تو کھلے طور پر سحر ہے۔ ’’ولئن قلت انکم مبعوثون من بعد الموت لیقولن الذین کفروا ان ھذا الا سحر مبین (ھود:۷)‘‘ مگر یہ دعویٰ اس وقت قابل التفات ہوتا کہ کسی ساحرکو نظیراً پیش کر دیتے کہ شق القمر وغیرہ مافوق العادت کام اس نے کیا تھا یا کوئی ایسی کتاب پیش کر دیتے کہ فصاحت وبلاغت میں قرآن سے بڑھ کر یا برابر ہے۔ غرض صدہا خارق العادت نشانیاں دکھلانے کے بعد حضرتﷺ کو کوئی ضرورت نہ تھی کہ ان کی فرمائشی نشانیاں بھی پیش کرتے۔
	ہاں اس میں شک نہیں کہ آنحضرتﷺ کے معجزات وفات شریف تک جاری رہے۔ بلکہ اب تک جاری ہیں۔ مگر وہ کفار کے مقابلے میں اور برسبیل تحدی نہ تھے۔ چونکہ حضرتﷺ کو تصرف فی الاکوان حاصل تھا۔ جس چیز سے چاہتے ایسا کام لیتے۔ جیسے خدمتگاروں سے لیاجاتا ہے۔ مثلاً جب میدان میں حاجت بشری کا تقاضا ہوتا تو درختوں کو کہلا بھیجتے وہ باہم ملک کر مثل بیت الخلاء کے ہوجاتے۔ اسی طرح جب پانی کی ضرورت ہوتی تو خشک کنوئیں کو حکم ہوجاتا فوراً اس سے پانی ابلنے لگتا اور اس قسم کے صدہا بلکہ ہزارہا معجزے متصل وقوع میں آتے جن میں نہ کسی کا مقابلہ پیش نظر ہوتا نہ تحدی۔ چونکہ ان میں تحدی مقصود نہ تھی۔ اس لئے بعضوں نے ان خوارق کا نام معجزہ ہی نہیں رکھا کیونکہ یہ امور حضرتﷺ کے حق میں ایسے معمولی تصرفات تھے۔ جیسے ہمارے تصرفات اپنے اعضاء وجوارح میں ہوتے ہیں۔ چنانچہ حکماء بھی اس بات کے قائل ہیں۔ جیسا کہ شیخ  ؒ نے اشارات کے نمط تاسع میں لکھا ہے۔ ’’والنبی متمیز باستحقاق الطاعۃ الاختصاصہ بالآیات تدل علی انہا من عندربہ‘‘ یعنی کمالات ذاتیہ کی وجہ سے نبی کو استحقاق حاصل ہوتا ہے کہ لوگ اس کی اطاعت کریں۔ جس کی وجہ سے وہ تمام عالم میں ممتاز ہوتا ہے۔ اس لئے کہ جو نشانیاں اس کو دی جاتی ہیں وہ یقینا دلالت کرتی ہیں کہ اﷲتعالیٰ کی طرف سے ہیں اور وہ نشانیاں اسی کے ساتھ خصوصیت رکھتی ہیں۔ کوئی دوسرا وہ نشانیاں نہیں دکھلاسکتا۔
	اور نیز شیخ نے اشارات کے نمط عاشر میں لکھا ہے۔ ’’ولا یستبعد ان یکون لبعض النفوس ملکۃ یتعدی تاثیر ہابدنہا اویکون لقوتہا کانہا نفس ناطقۃ للعالم‘‘ یعنی عقلاً یہ بعید نہیں کہ بعض نفوس کو ایسا ملکہ اور قوت حاصل ہوکہ بدن سے متجاوز ہوکر دوسری اشیاء پر اس کا اثر پڑے یا وہ نفس کمال قوت کی وجہ سے یہ درجہ رکھا ہو کہ گویا تمام عالم کانفس ناطقہ ہے اور اس میں ایسا متصرف ہے۔ جیسے دوسرے نفوس اپنے ابدان متعلقہ میں تصرف کرتے ہیں۔
	یہاں مرزاقادیانی ضرور اعتراض کریںگے کہ یہ عقیدہ شرک فی التصرف ہے۔ جیسا کہ انہوں نے عیسیٰ علیہ السلام کے معجزہ خلق طیر وغیرہ میں کہاتھا مگر اس کا جواب یہ ہے کہ حق تعالیٰ نے بعض صفات مختصہ اپنے بندوں کو بھی عطاء کئے ہیں۔ جیسا کہ سمع، بصر، علم، قدرت، ارادہ وغیرہ گویہ صفات حق تعالیٰ میں علیٰ وجہ الکمال اور اصالۃً ہیں اور بندوں میں ناقص طور پر لیکن عطائے الٰہی ہونے کی وجہ سے آخر بندہ بھی سمیع وبصیر وغیرہ کہلاتا ہے۔ پھر ان میں بھی باہم 
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 بسم اﷲ الرحمن الرحیم! 1 1
Flag Counter