Deobandi Books

احتساب قادیانیت جلد 21 ۔ غیر موافق للمطبوع - یونیکوڈ

49 - 377
	مگر یاد رہے کہ انشاء پردازی کیسی ہی بلاغت وفصاحت کے ساتھ بے نقط کیوں نہ ہو اگر اعلیٰ درجے تک ترقی کر جائے تو بھی متنبی بنا سکتی ہے۔ نبی نہیں بناسکتی کیونکہ رسول کے ساتھ نشانی ایسی ہونی چاہئے کہ اس کو بھیجنے والے کے ساتھ خصوصیت ہو،تا کہ پرسش کے وقت کسی کو اس عذر کا موقع نہ ملے کہ الٰہی وہ نشانی جو ہمیں دکھلائی گئی تھی وہ تو ہم جیسے ہی آدمی نے اپنی عقل سے بنالی تھی۔ کوئی بات مافوق العادت نہ تھی جو انسان کی قدرت سے خارج ہو۔
	نشانی طلب کرنا انسان کے جبلت میں داخل ہے۔ اسی وجہ سے جب کبھی خداتعالیٰ نے کسی قوم میں رسول بھیجا اس کے ساتھ کوئی نشانی بھی ایسی دی جس سے پوری حجت قائم ہوجاتی تھی اور نہ ماننے والوں پر عذاب نازل ہوتا۔ چنانچہ حق تعالیٰ فرماتا ہے۔ ’’ذلک بانہم کانت تاتیہم رسلہم بالبینات فکفرو فاخذ ھم اﷲ انہ قوی شدید العقاب (مؤمن۲۲)‘‘ یعنی ان لوگوں کو رسولوں نے کھلی کھلی نشانیاں دکھلائیں۔ پھر جب انہوں نے نہ مانا تو اﷲ نے ان کو پکڑا اور اﷲ قوی اور شدید العقاب ہے۔
	اب دیکھئے کہ جن نشانیوں کے قبول نہ کرنے پر سخت مواخذہ ہو وہ کیسی کھلی خوارق العادات ہونی چاہئیں جس میں کسی قسم کی جعلسازی کا اشتباہ نہ ہو۔ اسی وجہ سے حق تعالیٰ رسولوں کو بھیجنے سے پہلے ان کو نشانیاں دیا کرتا تھا۔ چنانچہ اس آیت سے ظاہر ہے۔ ’’اذھب انت واخوک بآیاتی (طہ:۴۲)‘‘ یعنی اے موسیٰ تم اور تمہارے بھائی میری نشانیاں لے کر فرعون کی طرف جاؤ اور ان نشانیوں یعنی عصاء اور یدبیضاء کا امتحان پہلے ہی کرادیاگیا۔ جیسا کہ قرآن شریف میں مذکور ہے۔ پھر جب فرعون کے پاس وہ گئے تو پہلے یہی کہا کہ ہم خدا کے بھیجے ہوئے اس کی نشانیاں لے کر تیرے پاس آئے ہیں۔ ’’قد جئناک بآیۃ من ربک (طہ:۴۷)‘‘ اور آخر یہی نشانیاں دیکھ کر ہزارہا جادوگر وغیرہ مسلمان ہوگئے اور جان کی کچھ پروا نہ کی۔ جیسا کہ حق تعالیٰ فرماتا ہے۔ ’’قالوا لن نؤثرک علیٰ ماجائنا من البینات والذی فطرنا فاقض ماانت قاض (طہ:۷۲)‘‘نشانیاں اس قوت کی ہوتی ہیں کہ ایک ہی جلسے میں اجنبیوں کو ایسے مسخر کرلیا کہ جان دینے پر مستعد ہوگئے اور کل انبیاء کی نشانیاں ایسی ہی ہوںگی۔ چنانچہ حق تعالیٰ فرماتا ہے۔ ’’فلما جاء تہم آیاتنا مبصرۃ قالوا ھذا سحر مبین وجحدوا بہا واستیقنتھا انفسہم ظلما وعلوا (نمل:۱۳،۱۴)‘‘ یعنی جب ان کے پاس ہماری نشانیاں آئیں آنکھیں کھول دینے والی تو لگے کہنے یہ تو صریح جادو ہے۔ اور باوجود یہ کہ ان کے دل یقین کر چکے تھے۔ مگر انہوں نے ظلم اور شیخی سے ان کو نہ مانا۔ اس سے ظاہر ہے کہ اگرچہ نشانیاں دیکھ کر کفار انکار تو کرتے تھے۔ مگر ان کے دل ان کی منجانب اﷲ ہونے کا یقین کرلیتے تھے اور ظاہر ہے کہ جب تک وہ نشانیاں قدرت بشری سے خارج نہ ہوں کبھی اس قسم کا یقین نہیں ہوسکتا۔ اسی وجہ سے جہاں لفظ آیات کا استعمال قرآن شریف میں ہوا ہے ایسے ہی چیزوں میں ہوا جو قدرت بشری سے خارج ہیں۔ مثلاً ’’ومن آیاتہ الیل والنہار والشمس والقمر (حم السجدہ:۳۷)‘‘ ’’ومن آیاتہ یریکم البرق (روم:۲۴)‘‘ ’’ومن آیاتہ ان یرسل الریاح (روم۴۲)‘‘ وغیرذلک ہر چند یہ نشانیاں خاص قدرت الٰہی پر دال ہیں اور انبیاء سے متعلق نشانیاں ان کی نبوت پر دال تھیں۔ لیکن حق تعالیٰ نے ان دونوں قسموں پر آیات ہی کا اطلاق فرمایا۔ اس لئے کہ دونوں کا صدور خاص قدرت الٰہی سے متعلق ہے۔ اسی وجہ سے کل آیات کا انکار قدرت الٰہی کے انکار کو مستلزم ہے اور عموماً آیات میں جھگڑنے والوں کی شان میں حق تعالیٰ فرماتا ہے۔ ’’وما یجادل فی آیات اﷲ الا الذین کفروا (مؤمن:۴)‘‘ یعنی اﷲ کی نشانیوں میں وہی لوگ جھگڑتے ہیں جو کافر ہیں۔ ’’کذلک یضل اﷲ من ھو مسرف مرتاب الذین یجادلون فی آیات اﷲ بغیر سلطان اتاھم کبر مقتاً عنداﷲ وعند الذین آمنوا کذلک یتبع اﷲ علیٰ کل قلب متکبرٍ جبارٍ (مؤمن:۳۴،۳۵)‘‘ یعنی ایسا ہی گمراہ کرتا ہے اﷲ ان لوگوں کو جو حد سے بڑھے ہوئے ہیں اور شک میں پڑے ہوئے ہیں اور بغیر سند کے اﷲ کی نشانیوں میں جھگڑتے ہیں۔ ان کو بڑی بیزاری ہے۔ اﷲ کے ہاں اور ایمانداروں کے ہاں۔ اس طرح مہر کرتا ہے۔ اﷲ ہر متکبر سرکش کے دل پر یہ بات یاد رہے کہ مرزاقادیانی نشانیوں 
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 بسم اﷲ الرحمن الرحیم! 1 1
Flag Counter