Deobandi Books

احتساب قادیانیت جلد 21 ۔ غیر موافق للمطبوع - یونیکوڈ

48 - 377
جائے اور اس میں دوسرے کی مدد کا گمان بھی ہوتو وہ کیونکر معجزہ سمجھا جائے۔ اگر مرزاقادیانی کوئی اعلان جاری فرمائیں کہ اتنی ہی بڑی مسجع کتاب کوئی لکھ دے تو میں نبوت کے دعویٰ سے توبہ کرتا ہوں تو ملاحظہ فرمالیں کہ کتنے رسالے شائع ہو جاتے ہیں۔ مرزاقادیانی نے ستر دن کی مہلت اس چار جزو کے رسالے کے واسطے جو قرار دی تھی اور مقابلہ کے لئے شاہ صاحب وغیرہ کو بلوایا تھا۔ اس سے ظاہر ہے کہ طبیعت آزمائی اور لیاقت نمائی اس سے مقصود تھی۔ کیونکہ سجعون کی تلاش اور تک بندی وغیرہ کے لئے کتب لغت وغیرہ کی مراجعت ضرور ہے اور اگر شاہ صاحب نے فی الواقع باوجود اقرار کے اس مدت میں کوئی کتاب نہیں لکھی تو بے شک مرزاقادیانی کی ذکاوت طبع اور ممارست فن ادب ان سے زیادہ ثابت ہوگی۔  مگر اس سے نبوت کا ثبوت محال ہے۔ عبارت میں تکلف سے سجعون کا فراہم کرنااور صنائع وبدائع کا التزام زائد از ضرورت ہے۔ جو صرف طبیعت آزمائی اور لیاقت نمائی کی غرض سے ہواکرتا ہے۔ نبوت سے اس کو کچھ تعلق نہیں بلکہ ایسے تکلفات مذموم سمجھے جاتے ہیں۔ (بخاری شریف ج۲، ص۸۵۷، باب الکہانۃ) میں ہے کہ ایک شخص نے عرض کیا ’’کیف اغرم یا رسول اﷲ من لاشرب ولااکل۰ ولانطق ولااستہل۰ فمثل ذلک یطل‘‘ حضرت نے فرمایا انما ہذا من اخوان الکہان یعنی یہ تو کاہنوں کا بھائی ہے۔ چونکہ اعجاز المسیح میں اس کا التزام کیا ہے تو اس سے ظاہر ہے کہ ان کو اظہار لیاقت مقصود ہے۔ اس مقام میں مخالف فیضی کی تفسیر کو ضرور پیش کرے گا۔ جس کی نسبت مرزاقادیانی (براہین احمدیہ ص۳۷۵تا۳۷۶ حاشیہ نمبر۳، خزائن ج۱ ص۴۴۸،۴۴۹) میں لکھا ہے کہ ’’بے نقط عبارتوں کا لکھنا نہایت سہل اور آسان ہے اور کوئی ایسی صنعت نہیں ہے جس کا انجام دینا انسان پر سخت مشکل ہوا ہے۔ اسی وجہ سے بہت سے منشیوں نے اپنے عربی اور فارسی کے املاء میں اس قسم کی بے نقط عبارتیں لکھی ہیں اور اب بھی لکھتے ہیں۔ بلکہ بعض منشیوں کی ایسی بھی عبارتیں موجود ہیں جن کے تمام حروف نقطہ دار ہیں اور کوئی بے نقطہ حرف ان میں داخل نہیں۔‘‘
	جب ذکاوت طبع ہی دکھانا منظور تھا تو کاش ایسی تفسیر لکھ دیتے جس میں تمام حروف نقطہ دار ہوں۔ جس سے مرزاقادیانی کی ذکاوت کا حال بھی معلوم ہوجاتا کہ فیضی کے برابر ہے یا زائد اور تمام مخالفین مان لیتے کہ مرزاقادیانی ہمارے زمانے میں فخر روزگار ہیں۔ اس موقع میں ہم فیضی کو ضرور قابل تحسین کہیںگے کہ باوجود یہ کہ پورے قرآن کی ایسی تفسیر لکھی مگر نہ دعویٰ نبوت کیا نہ اس کو معجزہ قرار دیا اور مرزاقادیانی چار ہی جزو کا رسالہ اور وہ بھی ایسا کہ تقریباً نصف میں تو سب وشتم اور مدح وذم وخودستائی وغیرہ معمولی باتیں ہیں اور باقی نصف میں اکثر عیسویت سے متعلق مباحث ہیں جو ایک زمانے کی مشاقی اور مزاولت وممارست سے مرزاقادیانی کو حفظ ہیں۔ ستر دن میں لکھ کر اس کو معجزہ قرار دیتے ہیں یہ زمانے کے انقلاب کا اثر ہے۔ اگر مرزاقادیانی کا یہ دعویٰ ہے کہ وہ رسالہ الہام سے لکھا گیا ہے۔ جیسا کہ اس عبارت اشتہار سے ظاہر ہے کہ ’’میں گواہی دیتا ہوں کہ حقیقت میں ایک اور ہے جو مجھے مدد دیتا ہے۔ لیکن وہ انسان نہیں بلکہ وہی قادر وتوانا ہے۔ جس کے آستانے پر ہمارا سر ہے۔‘‘ 			     (اعجاز المسیح ص۲، خزائن ج۱۸ ص۲)
	اس صورت میں مرزاقادیانی کے غلبہ کی آسان تدبیر یہ تھی کہ شاہ صاحب کو لکھ بھیجتے کہ آپ مع چند علماء اور ہم کسی جگہ جمع ہوں پھر آپ جس سورۃ کی تفسیر چاہیں لکھنے کی فرمائش کردیں۔ ہم بلاتکلف مسجع اور بلیغ وفصیح الہامی عبارت متصل کہتے جائیںگے اور آپ لکھ لیا کریں۔ پھر جب مرزاقادیانی اسی طرح عبارت لکھوادیتے تو کسی کو کلام کی گنجائش ہی نہ رہتی اور ایک ہی جلسے میں فیصلہ ہوجاتا اور ممکن ہے کہ اب بھی یہی تدبیر فرمائیں، کیونکہ خدا کی مدد تو ابھی منقطع نہ ہوئی ہوگی۔

x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 بسم اﷲ الرحمن الرحیم! 1 1
Flag Counter