Deobandi Books

احتساب قادیانیت جلد 21 ۔ غیر موافق للمطبوع - یونیکوڈ

4 - 377
آنحضرتﷺ اس عالم میں تشریف فرماتھے۔ فیضان صحبت اور غلبۂ روحانیت کی وجہ سے تمام اہل اسلام عقائد دینیہ میں خود رائی سے مبرّا اور خود غرضی سے معرّا تھے اور اطاعت وانقیاد کا مادہ ان میں ایسا متمکن اور راسخ تھا کہ مخالفت خدا ورسول کے خیال کا بھی وہاں گذر نہ تھا۔ پھر جب حضرتؐ بعد تکمیل دین تشریف فرمائے عالم جاودانی ہوئے۔ بعض طبائع میں بمقتضائے جبلت خود سری کا خیال پیدا ہوا اور عقل خود پسند پر جو قوت ایمانی کا دباؤ تھا کم ہونے لگا اور دوسرے اقوام کے علوم اپنے سبز باغ مسلمانوں کو دکھلانے لگے اور ادھر امتداد زمانے کی وجہ سے خلافت نبوت کی قوت میں بھی کسی قدر ضعف آگیا۔ جس سے وحدت قہری کا شیرازہ بکھر گیا۔ غرض اس قسم کے اسباب سے جدت پسند طبائع نے مخالفت کی بنیاد ڈالی۔ کسی نے اہل حق پر عدم تدیّن کا الزام لگا کر کمال تقویٰ کی راہ اختیار کی جو صرف نمائش تھی اور درحقیقت وہ کمال درجے کا فسق تھا۔ جیسے خوارج کہ جنگ باہمی وغیرہ شبہات کی وجہ سے حضرت علی کرم اﷲ وجہہ اور جملہ صحابہ کی تکفیر کر کے مسلمانوں کی جماعت سے علیحدہ ہوگئے اور بعضوں نے امامت کے مسئلہ پر زور دے کر اس جماعت سے مخالفت کی۔ جس سے اور ایک جدا فریق قائم ہوگیا۔ کسی نے مسئلہ تنزیہ میں وہ غلوکیا کہ صفات الٰہیہ کا انکار ہی کردیا اور اس جماعت سے علیحدگی اختیار کر کے ایک فرقہ بنام معتزلہ اپنے ساتھ کر لیا۔ بعضوں نے مسئلہ جبر وقدر میں افراط وتفریط کر کے دو فرقے اس جماعت سے علیحدہ بنا لئے۔
	الغرض اس جماعت حقہ سے بہت سے لوگ علیحدہ ہوکر جداگانہ اسماء کے ساتھ موسوم ہوتے گئے۔ پھر جو جو فرقے علیحدہ ہوتے گئے عقل سے کام لے کر نئے نئے مسائل تراشتے اور ان کو اپنا مذہب قرار دیتے گئے۔ جس کی وجہ سے بکثرت مذاہب ہوگئے۔ لیکن ان تمام انقلابات کے وقت وہ جماعت کثیرہ جو ابتدائے اسلام سے قائم ہوئی تھی انہیں اعتقادات پر قائم رہی۔ جو ان کو وارثتہً آباؤاجداد سے پہنچے تھے۔ انہوں نے عقل کو نقل کے تابع کر کے قرآن وحدیث کو اپنا مقتدأ بنارکھا اور تمام اعتقادات میں قدم بقدم صحابہؓ کی پیروی کرتے رہے۔
	یہ جماعت وہی ہے جو اہل سنت وجماعت کے نام سے اب تک مشہور ہے اور جہاں آنحضرتﷺ نے اپنی امت کے تفرقے کا ذکر فرمایا۔ وہاں اس جماعت کو اس خوبی اور خوش اسلوبی کے ساتھ یاد کیا کہ ہر شخص کو اس میں شریک ہونے کی آرزو ہوتی ہے۔ مگر صرف آرزو سے کیا ہوگا۔ وہاں تو یہ شرط لگی ہوئی ہے کہ آنحضرتﷺ اور صحابہؓ کے طریقے پر رہیں۔ چنانچہ ارشاد ہے۔ ’’عن عبداﷲ بن عمرؓ قال قال رسول اﷲﷺ وتفترق امتی علی ثلث وسبعین ملۃ کلھم فی النار الاملۃ واحدۃ قالوا من ھی یارسول اﷲ قال ما انا علیہ واصحابی (رواہ الترمذی وفی روایۃ احمدو ابی داؤد عن معاویۃ ثنتان وسبعون فی النار واحدۃ فی الجنۃ کذافی المشکوٰۃ ص۳۰، باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ)‘‘
	یوں تو ہر مذہب والے دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم بھی صحابہؓ کے پیرو ہیں اور احادیث ہمارے ہاں بھی موجود ہیں۔ مگر تحقیق کرنے سے یہ معلوم ہوسکتا ہے کہ سوائے اہل سنت وجماعت کے یہ بات کسی کو حاصل نہیں۔ فن رجال کی صدہا کتابیں موجود ہیں جن سے ظاہر ہے کہ علمائے اہل سنت نے جرح وتعدیل رواۃ اور تحقیق احادیث وآثار صحابہ میں کس قدر جانفشانیاں کیں۔ جن کی وجہ سے کسی مفتری بے دین کی بات کو فروغ ہونے نہ پایا اور احادیث وآثار ان کی سعی سے اب تک محفوظ رہے۔ اس امر کا اہتمام جس قدر علمائے اہل سنت وجماعت نے کیا ہے اس کی نظیر نہ امم سابقہ میں مل سکتی ہے نہ کسی دوسرے مذہب میں یہ اہتمام اور خاص توجہ بآواز بلند کہہ رہی ہے کہ سوائے اہل سنت وجماعت کے کوئی مذہب ناجی اور مصداق اس حدیث کا نہیں ہوسکتا۔

x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 بسم اﷲ الرحمن الرحیم! 1 1
Flag Counter