Deobandi Books

احتساب قادیانیت جلد 21 ۔ غیر موافق للمطبوع - یونیکوڈ

37 - 377
اجعل علیٰ کل حبلٍ منہن جزأً (بقرہ:۲۶۰)‘‘ میں لفظ ذبح نہیں ہے۔ اس لئے ہر پرندے کو چار پرندوں کا جزو قرار دیا۔ جس کا مطلب یہ ہوا کہ ہر پہاڑ پر ان چار پرندوں کا ایک ایک جزو یعنی ایک ایک پرندہ چھوڑ دو۔ اہل فصاحت پر پوشیدہ نہیں کہ مرزاقادیانی ثم اجعل الخ کاجو مطلب بتاتے ہیں کہ دو پرندے پہاڑوں میں جدا کر کے چھوڑ دو اس کے لئے تو یہ الفاظ ثم فرقہن فی الجبل کافی ہے۔ اس مطلب کے لئے ’’ثم اجعل علی کل جبل منہن جزأً‘‘ کہنا قطع نظر فصاحت وبلاغت کے فوت ہو جانے کے مضمون بھی دوسرا ہو ہی جاتا ہے۔ اس لئے کہ اگر یہ مضمون بیان کرنا ہو۔ (ہر پہاڑ پر ان کا ایک ایک ٹکڑا رکھ دو) تو سوائے ثم اجعل علی کل جبل منہن جزأً کہنے کے یہ مضمون ہرگز ادا نہ ہوسکے گا۔ پھر جب مرزاقادیانی والا مضمون دوسرے الفاظ میں ادا ہوسکتا ہے اور یہ مضمون سوائے الفاظ آیت شریفہ کے ادا نہیں ہوسکتا اور اسی مضمون کی تصدیق صحابہؓ خصوصاً ابن عباسؓ جیسے صحابی کے قول سے ہورہی ہے اور اس تصریح کے ساتھ کہ چار پرندوں کے ٹکڑے سات پہاڑوں پر رکھے گئے تھے تو اس کو چھوڑ کر ایسا مضمون نکالنا جس سے کلام پایۂ بلاغت وفصاحت سے گر جائے اور کلام الٰہی پر ایسا بدنما دھبہ لگے۔ جس کو کوئی مسلمان قبول نہیں کرسکتا۔ کس قدر جرأت کی بات ہے۔ اگر مرزاقادیانی مثلاً یہ کہنا چاہیں کہ چار شخص ہم نے معین کئے پھر ان میں سے ہر ایک کو ایک گاؤں بھیجا تو کیا یہ فرمائیںگے ثم ارسلت الی کل قریۃ منہم جزامیں سمجھتا ہوں کہ بجائے جزاء کے واحداً فرمائیںگے۔ بشرطیکہ اس بحث کا تعلق معلوم نہ ہوا۔ اس لئے کہ ایسے موقع میں جب کوئی پوری خبر بیان کرنا ہو تو جزأً نہیں کہا جاتا۔ جیسا کہ حق تعالیٰ فرماتا ہے۔ ’’والنبیون من ربہم لا نفرق بین احد منہم (بقرہ:۱۳۶)‘‘ دیکھ لیجئے ایک نبی بقول مرزاقادیانی تمام انبیاء کا جزو ہے۔ مگر بین جزئٍ منہم نہیں فرمایا یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ جس معنی کے مرزاقادیانی قائل ہیں کہ واقع میں پرندے پہاڑوں پر چھوڑ دئیے گئے تھے۔ اس معنی پر تو قرآن شریف کی عبارت غلط ٹھہرتی ہے۔ جیسا کہ ابھی معلوم ہوا پھر اسی پر اڑے رہنا ضمناً یہ دعویٰ ہے کہ اس مقام میں قرآن میں غلطی ہے۔
	مرزاقادیانی اپنی عیسویت پر یہ استدلال بھی پیش کرتے ہیں کہ کریم بخش کی گواہی سے یہ ثابت ہے۔ (ازالۃ الاوہام ص۷۰۷،۷۰۸، خزائن ج۳ ص۴۸۱،۴۸۲) میں کہ ’’ایک بزرگ گلاب شاہ نام نے پیش گوئی کی تھی کہ عیسیٰ لدھیانے میں آکر قرآن کی غلطیاں نکالے گا۔‘‘ اگر وہ بزرگ فی الحقیقت صاحب کشف تھے تو پیش گوئی ان کی صحیح نکلی۔ مگر مقام تردد یہ ہے کہ پھر انہوں نے عیسیٰ کیوں کہا۔ کہہ دیتے کہ ایک شخص ایسا کام کرے گا اس کی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ انہوں نے کشف میں مرزاقادیانی کا دعویٰ عیسویت بھی دیکھ لیا تھا۔ اس لئے عیسیٰ کہہ دیا۔ یعنی عیسیٰ ادعائی اور چونکہ قرآن میں غلطیاں نکالنا عیسیٰ موعود کی شان کے منافی ہے۔ اس لئے انہوں نے ضمناً یہ بھی کہہ دیا کہ اگرچہ عیسویت کے مدعی ہوں۔ مگر عیسیٰ نہیں ہوسکتے اس کی مثال ایسی ہے کہ کسی مجلس میں لوگ کہیںکہ فلاں شخص شیر ہے اور ایک شخص کہے کہ شیر ایسا ہے کہ بکری سے ڈرتا ہے تو اس کا شیر کہنا اعتراف نہ سمجھا جائے گا۔ بلکہ وہ منافی صفت بیان کرنا اس بات پر دلیل ہوگا کہ اس صفت کا ابطال اس کو مقصود ہے۔
	امام فخر الدین رازیؒ نے (تفسیر کبیر ج۳ ص۲۰۸،۲۱۰، تحت آیت واتبعوا ما تتلوا الشیاطین علیٰ ملک سلیمان) میں سحر کے کئی اقسام بیان کئے ہیں۔ منجملہ ان کے ایک سحر اصحاب اوہام اور نفوس قویہ کا ذکر کیا ہے۔ اس کی کیفیت یہ ہے کہ آدمی جب قوت وہمیہ اور نفسانیہ بڑھانے میں کوشش کرتا ہے تو وہ قوتیں اس قدر بڑھتی ہیں کہ ان سے عجائبات صادر ہونے لگتے ہیں اور دوسری قسم استعانت بالارواح الارضیہ لکھا ہے۔ یعنی ارواح ارضیہ کی مدد سے امور عجیبہ ظاہر کئے جاتے ہیں۔ یہ بات بتواتر ثابت ہے کہ ساحر لوگ عملی تدابیر سے ارواح مناسبہ پر کچھ ایسا اثر ڈالتے ہیں کہ وہ مسخر اور فرمانبردار ہوجاتی ہیں۔ چنانچہ حدیث شریف ان من البیان لسحرا سے بھی اشارتا یہ بات 
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 بسم اﷲ الرحمن الرحیم! 1 1
Flag Counter