Deobandi Books

احتساب قادیانیت جلد 21 ۔ غیر موافق للمطبوع - یونیکوڈ

36 - 377
یعنی جدا جدا کر کے چار پہاڑیوں پر چھوڑا گیا تھا اور پھر وہ بلانے سے آگئے تھے۔ یہ بھی عمل الترب (مسمریزم) کی طرف اشارہ ہے… ممکن ہے کہ انسان کی قوت مقناطیسی اس حد تک ترقی کرے کہ کسی پرند یا چرند کو صرف اپنی طرف کھینچ لے۔ ’’فتدبر ولا تغفل‘‘
	اہل علم پر پوشیدہ نہیں کہ ’’فخذ اربعۃ من الطیر‘‘ میں جو فاہے گویا تفریع اسی دعا پر ہے جو مردوں کو زندہ کرنے کے باب میں تھی۔ جس سے ظاہر ہے کہ وہ دعا قبول ہوئی اور پرندوں کو ذبح کرنے کا حکم ہوا ور نہ صرف ارشاد ہوجاتا کہ یہ دعا کیسی مردوںکو زندہ کرنا تو اس عالم میں نہیں ہوسکتا۔ بلکہ خلاف مرضی دعا ہوتی تو اس پر عتاب ہوجاتا جیسے دیدار الٰہی کی درخواست کرنے والوں پر عتاب ہوا تھا۔ جن پر بجلی گرائی گئی اور وہ جل کر ڈھیر ہوگئے۔ ’’فقالو ارنا اﷲ جھرۃ فاخذتہم الصاعقۃ (نسائ:۱۵۳)‘‘ غرض جب قرائن سے معلوم ہوا کہ دعاء احیائے موتیٰ قبول ہوئی تو اس کے بعد بجائے احیائے موتیٰ مسمریزم کا خیال کرنا گویا درپردہ یہ کہنا ہے کہ نعوذ باﷲ حق تعالیٰ کو احیائے موتیٰ کی قدرت نہ تھی اور مسمریزم کے عمل کے بعد بھی ان کا مقصود جو خلت کی نشانی معلوم کرنا تھا۔ حاصل نہ ہوا کیونکہ نشانی تو احیاء تھی اور اس عمل سے جو معلوم ہوا اسی قدر تھا کہ انسان کے روحانی تصرف سے جانور بھی مسخر ہو جاتے ہیں۔ جس سے ان کی دعا کو کوئی تعلق نہیں اور اگر یہ غرض تھی کہ اس پر قیاس کریں کہ جیسے پرندے بلاتے ہی آجائیں گے۔ روحوںکو بھی خدائے تعالیٰ ایسا ہی بلالے گا تو یہ مثال قائم کرنے کے لئے اس سے آسان طریقہ یہ تھا کہ کسی خادم کو پکارنے کا حکم ہو جاتا جو پرندوں سے بھی پہلے پکارتے ہی آکھڑا ہوتا اور مسمریزم کی مشاقی حاصل کرنے کی زحمت جو ضرورت سے زیادہ تھی اٹھانی نہ پڑتی۔ پھر ابراہیم علیہ السلام کو احیائے موتیٰ دیکھنے سے خواہ خلت کی نشانی معلوم کرنا منظور ہو یا مشاہدہ احیاء اس مسمریزم سے دونوں مقصود فوت ہیں اور ایمان بالغیب جو پہلے تھا وہی اس کے بعد بھی رہانہ دعا سے کچھ فائدہ ہوا نہ اجابت دعا سے بلکہ بہت بڑا نقصان یہ لازم آتا ہے کہ خلت کا جو پہلے سے ایمان تھا۔ نعوذ باﷲ وہ بھی جاتا رہے اس لئے کہ باوجود قدرت کے جب اس کی نشانی نہیں دکھلائی جائے تو یہی یقین ہوگا کہ دراصل اس کا وجود نہیں۔ حالانکہ انبیاء اپنے اطمینان کے لئے جب کوئی نشانی طلب کرتے ہیں تو وہ ان کو دکھلائی جاتی ہے۔ چنانچہ زکریا علیہ السلام کے قصے سے ثابت ہے کہ ’’قال رب انی یکون لی غلام وقد بلغنی الکبر وامراتی عاقر قال کذلک اﷲ یفعل ما یشاء قال رب اجعل لی آیۃ قال آیتک ان لا تکلم الناس ثلثہ ایام الارمزا (آل عمران:۴۰،۴۱)‘‘ حاصل یہ کہ جب فرشتوں نے زکریا علیہ السلام کو اﷲتعالیٰ کی طرف سے خوشخبری سنائی کہ آپ کو ایک فرزند ہوگا۔ جس کا نام یحییٰ ہے۔ عرض کی کہ اے رب مجھے کیونکر لڑکا ہوگا۔ ایسی حالت میں کہ میں بوڑھا ہوں اور میری بی بی بانجھ ہے۔ فرمایا خدائے تعالیٰ جو چاہے کر سکتا ہے۔ پھر عرض کی اے رب اس کی کوئی نشانی مقرر فرما۔ جس سے حمل کا وقت معلوم ہوجائے۔ ارشاد ہوا کہ تین روز تک تم لوگوں سے بات نہ کر سکوگے۔ سوائے اشارے کے ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ زکریا علیہ السلام کی عمر ایک سو بیس سال کی تھی اور ان کی بی بی کی عمر اٹھانوے سال کی اس وجہ سے ان کو استبعاد ہوا کہ ایسی حالت میں کیونکر لڑکا ہوگا اور نشانی طلب کرنے کی ضرورت ہوئی اور نشانی جو قرار دی گئی تھی اس کا ظہور اس طرح سے ہوا کہ تین روز تک سوائے ذکر الٰہی کے اگر کوئی بات کرنا چاہے تو زبان رک جاتی۔ صرف ہاتھ یا پیر کے اشارے سے کوئی طلب ظاہر کر سکتے تھے۔ غرض سنت الٰہی جاری ہے کہ انبیاء علیہم السلام جب کسی بات کے یقین یا اطمینان حاصل ہونے کے لئے کوئی نشانی طلب کرتے ہیں تو ان کو دکھلائی جاتی ہے۔ پھر خاص خلیل کو ان کے خلت کے متعلق نشانی باوجود طلب کرنے کے نہ بتلائی جانا ہرگز قرین قیاس نہیں اور یہ ایسا بودا خیال ہے کہ کوئی مسلمان جس کو خلت کے معنی معلوم ہوں اور قدرت الٰہی کو جانتا ہو۔ ہرگز اس طرف توجہ نہیں کرسکتا کہ مسمریزم سے وہاں کام لیاگیا۔ مرزاقادیانی کو صرف اتنا موقع مل گیا کہ آیت شریفہ ’’فخذ اربعۃ من الطیر فصرھن الیک ثم 
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 بسم اﷲ الرحمن الرحیم! 1 1
Flag Counter