Deobandi Books

احتساب قادیانیت جلد 21 ۔ غیر موافق للمطبوع - یونیکوڈ

30 - 377
جب یہ یقین تھا کہ جو پہلے حوض میں کودے اسی کو صحت ہوتی ہے تو ہر شخص یہی چاہتا ہوگا کہ سبقت کر کے سردست صحت حاصل کر لے۔ یہ تو ممکن نہیں کہ ہر شخص دوسرے سے کہے کہ تم صحت پاکر جلدی سے چلے جاؤ اور ہم اس فرشتے کے انتظار میں یہاں سڑتے پڑے رہیںگے اور ان پانچ اساروں میں کس قدر گھوسم گھسا سا اور خانہ جنگیاں ہوتی ہوںگی۔ کتنے تو اسی بھیڑ میں دم گھٹ گھٹ کر مرتے ہوںگے اور کتنے پانی میں گراکر ڈبوئے جاتے ہوںگے اور کتنوں کا زدوکوب سے خون ہوتا ہوگا۔ پھر اس فرشتے کے اترنے کا وقت معلوم نہ ہونے کی وجہ سے لوگوں کا ہمیشہ جھمگھٹا رہتا ہی ہوگا۔ جس سے ہوا میں عفونت اور سمیت پیدا ہوکر صدہا آدمی مرتے ہی ہوںگے۔ غرض کوئی عاقل قبول نہیں کر سکتا کہ ایک غیر معین شخص کی صحت کے واسطے صدہا موتیں گوارا کی جاتی ہوںگی۔ پھر اس فرشتے کو اتنا بخل یا آدمیوں سے عداوت کیوں تھی کہ کبھی کبھی پانی میں اترکر ہلادیتا تھا۔ اگر گھنٹے یا آدھ گھنٹے پر پانی میں اتراکرتا تو کیا اس کو سردی ہوجاتی یا فالج وغیرہ کا مادہ پیدا ہوجاتا اور اس کی کیا وجہ کہ جو مریض سب سے پہلے اس میں کودے وہی شفایاب ہو جائے۔ اگر کوئی اس میں زہرملا مادہ تھا تو ہر طرف تھا کیونکہ کوئی ایک جگہ معین نہ تھی جس سے شفا متعلق ہو۔
	الغرض عقل کی رو سے یہ بات ہرگز سمجھ میںنہیں آتی کہ ایسے حوض کا کہیں بھی دنیا میں وجود ہوا ہو۔ مرزاقادیانی نے انجیل پر ایمان لاکر قرآن پر اس حوض سے ایسے ایسے اعتراضات قائم کر دئیے جن کی نسبت فرماتے ہیں کہ ’’وہ اعتراضات اٹھ نہیں سکتے۔‘‘ مگر افسوس ہے کہ قرآن پر ایمان لاکر یہ نہ فرمایا کہ حق تعالیٰ نے جو معجزات عیسیٰ علیہ السلام کو دئیے تھے وہ ایسے نہ تھے کہ ان میں ایسے مصنوعی قصوں سے کسی قسم کا شبہ واقع ہو۔ اس لئے کہ حق تعالیٰ فرماتا ہے۔ ’’واتینا عیسیٰ ابن مریم البینات (بقرہ:۲۵۳)‘‘ {یعنی عیسیٰ علیہ السلام کو ہم نے کھلے کھلے معجزے دئیے تھے جن میں کوئی شک وشبہ ممکن نہ تھا۔}
	مرزا قادیانی (ازالۃ الاوہام ص۳۱۱ حاشیہ، خزائن ج۳ ص۲۵۸،۲۵۹) میں لکھتے ہیں کہ ’’حضرت مسیح کے عمل الترب (یعنی مسمریزم) سے وہ مردے جو زندہ ہوتے یعنی وہ قریب الموت آدمی جو گویا نئے سرے سے زندہ ہو جاتے تھے۔ وہ بلاتوقف چند منٹ میں مرجاتے تھے۔ کیونکہ بذریعہ عمل الترب روح کی گرمی اور زندگی صرف عارضی طور پر ان میں پیدا ہوجاتی تھی۔‘‘ قرآن شریف میں صاف طور پر ’’واحی الموتیٰ باذن اﷲ (آل عمران:۴۹)‘‘ مگر مرزاقادیانی کہتے ہیں کہ ’’کوئی مردہ انہوں نے زندہ نہیں کیا۔ بلکہ جیسے قریب الموت شخص کو جواہر مہرہ وغیرہ سے چند منٹ کے لئے گرمی آجاتی ہے۔ اس طرح عیسیٰ علیہ السلام بھی چند منٹ کے لئے قریب الموت شخص کو کسی قسم کی گرمی پہنچا دیا کرتے تھے۔‘‘ مگر اس کا ذکر نہ قرآن میں، نہ حدیث میں، نہ اب تک کوئی مسلمان اس کا قائل ہوا۔ بلکہ مسیح کا نام اسلام میں احیاء اموات اور شفائے بیماروں کے باب میں ایسا مشہور اور ضرب المثل ہے۔ جیسے حاتم کا نام جودوسخا میں، قرآن وحدیث سے مرزاقادیانی کو وہیں تک تعلق ہے کہ اپنا مطلب بنے اور جب کوئی بات ان کی مرضی اور مقصود کے خلاف نکلی تو پھر نہ قرآن کو مانیں نہ حدیث کو، کیا نبیﷺ نے اس آیت کے یہی معنی سمجھے ہوںگے کہ وہ مسمریزم سے حرکت دیاکرتے تھے۔ مسمریزم کو نکل کر تو سوبرس بھی نہیں ہوئے۔ چنانچہ فن مسمریزم کی کتابوں میں لکھا ہے کہ ’’یورپ وسطی میں راس نامی ایک بڑا دریا ہے۔ جس کے کنارے پر چھوٹا سا قصبہ سپٹین نامی مشہور ہے۔ اس قصبے میں ۵؍مئی۱۷۳۴ء میں ایک مشہور ڈاکٹر جس کا نام انتونی مسمر تھا پیدا ہوا اور اس نے اپنی بے حد کوششوں سے اس فن کو ایجاد کیا۔ چنانچہ اس کے نام سے مسمریزم مشہور ہوا۔‘‘ اب مرزاقادیانی کے اس قول کو بھی یاد کر لیجئے جو فرمایا تھا کہ قرآن 
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 بسم اﷲ الرحمن الرحیم! 1 1
Flag Counter