Deobandi Books

احتساب قادیانیت جلد 21 ۔ غیر موافق للمطبوع - یونیکوڈ

22 - 377
کوئی شخص زندہ آسمانوں پر جانہیں سکتا اور اسی بناء پر نبیﷺ کے معراج جسمانی کا انکار ہی کردیا اور جو احادیث صحیحہ اس باب میں وارد ہیں۔ ان کی تغلیط کی اور ’’واذقال اﷲ یاعیسیٰ انی متوفیک ورافعک (آل عمران:۵۵)‘‘ سے یہ استدلال کیا کہ خداتعالیٰ نے ان کی خبر دی تھی کہ تم مرنے والے ہو اور تم کو میں اٹھانے والا ہوں۔ چونکہ اس آیت میں پہلے ان کی وفات کا ذکر ہے۔ اس سے ثابت کیا کہ وفات پہلے ہوئی اور اس کو نظر انداز کیا کہ واؤ ترتیب کے لئے ہے۔ حالانکہ کئی آیتوں سے ثابت ہے کہ واؤ سے جو عطف ہوتا ہے اس میں ترتیب نہیں ہوتی۔ اسی بناء پر ابن عباسؓ سے جو روایت ہے کہ اس آیۂ شریفہ میں معنی تقدیم وتاخیر ہے۔ اس کی نسبت کہا کہ انہوں نے اپنے لئے خدا کی استادی کا منصب قراردیا۔ پھر اپنے زعم میں عیسیٰ علیہ السلام کو میت قرار دے کر لکھا کہ کسی مرے ہوئے کو خدانے زندہ کیا ہی نہیں۔ حالانکہ متعدد واقعات میں ہزارہا مردوں کا زندہ ہونا قرآن شریف سے ثابت ہے۔ سب میں تاویلیں کر کے ان کا انکار کردیا اور جس قدر احادیث اس باب میں وارد ہیں۔ سب کو غلط ٹھہرایا پھر اس مسئلے میں یہاں تک ترقی کی کہ قیامت میں بھی عیسیٰ علیہ السلام کا زمین پر آنا غیر ممکن بتایا اور حشر اجساد سے صاف انکار کردیا اور دجال اور امام مہدی کے باب میں جتنی حدیثیں وارد ہیں سب کی تکذیب کی۔
	غرض کہ اپنے مقاصد میں جس آیت یا حدیث کو ہارج دیکھا سب کی تکذیب یا تحریف کرڈالی۔ ان کے سوا اور بہت سے مباحث ہیں جن کا ذکر موجب تطویل ہے۔ حاصل یہ کہ براہین احمدیہ اور ازالۃ الاوہام کو خاص اپنی عیسویت اور نبوت ثابت کرنے کی غرض سے لکھا۔ جیسا کہ الہامات مذکورۂ بالا سے ثابت ہے۔
	نبوت کی آرزو ابتداء میں مسیلمہ کذاب کو ہوئی۔ اس کے بعد اکثر عقلاء کو ہوئی اور چونکہ آیۂ شریفہ خاتم النبیین اور حدیث لا نبی بعدی ان کی تکذیب کرتی تھی۔ اس کے جواب کے لئے بہت سی تدبیریں سوچی گئیں۔ بعضوں نے معنی میں تصرف کیا۔ بعضوں نے یہ تدبیر کی کہ لانبی بعدی کے بعد الا ان یشاء اﷲ روایت میں زیادہ کردیا مگر کسی کی چلی نہیں گو بعض بے دینوں نے مان لیا۔ مگر عموماً اہل اسلام ان کی تکذیب ہی کرتے رہے۔ مرزاقادیانی نے دیکھا کہ اس زمانے میں روایت کی بھی ضرورت نہیں۔ اپنی جرأت سے لانبی بعدی کے بعد الانبی ظلی بڑھادیا۔ کیونکہ وہ ظلی نبوت کو مع جمیع لوازم حقیقتہً جائز رکھتے ہیں اور خوش اعتقادوں نے اس پر بھی آمنا وصدقنا کہہ دیا۔
	قرآئن قویہ سے یہ بات ثابت ہے کہ مرزاقادیانی کو نبوت مستقلہ کا دعویٰ ہے۔ مگر یہ خوف بھی لگا ہوا ہے کہ کہیں کوئی مسلمان پکڑ لے کہ وہ قرآن وحدیث کے خلاف ہے۔ تو رہائی مشکل ہوگی۔ اس لئے انہوں نے فرار کی یہ راہ نکالی کہ ظلی کہہ کر چھوٹ جائیںگے اور یہی عقلاء کا طریقہ بھی ہے کہ ’’قدم الخروج قبل الولوج‘‘ کو ہمیشہ پیش نظر رکھا کرتے ہیں۔ بلکہ کتب لغت اور تفاسیر میں تو یہ بھی لکھا ہے کہ بعض ہوشیار جانوروں کا بھی اس پر عمل ہے۔ چنانچہ جنگلی چوہے کی عادت ہے کہ جس زمین میں گھر بناتا ہے اس میں ایک سوراخ ایسا بھی بنارکھتا ہے کہ اگر کوئی آفت آئے تو اس راہ سے نکل جائے۔ اس احتیاطی راستے کو عرب نافقا کہتے ہیں۔ مسلمانوں میں بھی اس قسم کے عقلاء پیدا ہوگئے تھے کہ ظاہری موافقت اہل اسلام کو جان بچانے کی راہ بنارکھی تھی۔ حق تعالیٰ نے ایسے عقلاء کا نام منافق رکھا۔ جن کی نسبت ارشادہے۔ ’’ان المنافقین فی الدرک الاسفل من النار (نسائ:۱۴۵)‘‘ یعنی منافق کفار سے بھی بدتر ہیں۔ جن کا ٹھکانا دوزخ کے نیچے کے طبقے میں ہے۔ 

x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 بسم اﷲ الرحمن الرحیم! 1 1
Flag Counter