Deobandi Books

احتساب قادیانیت جلد 21 ۔ غیر موافق للمطبوع - یونیکوڈ

18 - 377
عیسیٰ کجا است تابہ نہد پابہ منبرم
(ازالۃ الاوہام ص۱۵۸، خزائن ج۳ ص۱۸۰)
	اور تلافی مافات اس طور سے کی گئی کہ عیسیٰ کا دوبارہ آنا ظاہری اعتقاد کے لحاظ سے لکھاگیا تھا اور خدا کی قدرت ہے کہ اس آخری الہام سے دس برس پہلے خدا نے آپ کا نام عیسیٰ رکھ کر مشہور کردیا تھا۔ اسی طرح جب ظل اور طفیل وغیرہ الفاظ کو ہٹانا منظور ہوگا تو ایک الہام ہو جائے گا کہ ہم نے تجھے مستقل نبی کردیا۔ اس وقت اگر پرانے خیال والا کوئی معترض چون وچرا کرے تو کمال غیظ وغضب سے فرمائیںگے کہ تو بھی عجب بیوقوف ہے۔ ارے میاں خدا سے بالمشافہ بات کرنے والا جس پر وحی بھی اترتی ہو اور اس کو خدا نے اپنا خلیفہ بھی بنادیا اور تمام قدرت اس کے قبضے میں دے دی کہ جو چاہے کن کہہ کر کر ڈالے کہیں طفیلی ہوسکتا ہے۔ یہ الفاظ ہم نے صرف ظاہری اعتقاد کے لحاظ سے سرسری پیروی کے طور پر لکھ دئیے تھے اور اس حکمت عجیبہ پر نظر ڈالو کہ بیس پچیس برس پہلے خدا نے اس عاجز کو تمام فضائل مذکورہ مستقل طور پر دے کر عالم میں مشہور کردیا تھا۔ دیکھتے ہو کہیں ان فضائل میں ظلی اور طفیلی کا نام بھی ہے۔
	مرزاقادیانی کو اپنی عیسویت جو ابتدا سے پیش نظر تھی اس کے ثابت کرنے میں کیسی کیسی کارروائیاں کرنی پڑیں۔ ابتدا یوں کی گئی کہ حدیث شریف میں وارد ہے۔ علمائے امتی کا نبیاء بنی اسرائیل اس لئے میں تمام انبیاء کا مثیل ہوں اور چونکہ اس میں کوئی خصوصیت ان کی نہ تھی۔ اس لئے کہ تمام علماء اس بشارت میں شریک تھے۔ اس وجہ سے خدا کی طرف سے پیام پہنچایا گیا کہ خاص طور پر فلاں فلاں نبی کے مثیل مرزاقادیانی ہیں۔ چنانچہ وہ آیتیں الہام میں پیش کی گئیں۔ جن میں انبیاء کے نام تھے۔ جیسا ففہمناہا سلیمان اور یاعیسیٰ انی متوفیک وغیرہ اور ان کے ترجمے میں لکھ دیا کہ اس سے مراد عاجز ہے۔ یہ کارروائی اس خیال سے کی گئی کہ حمقاء اس زوردار حکم کو ہرگز رد نہ کریںگے۔ پہلے تو آیت قرآنی اور اس پر الہام ربانی اور جہلاء جب ان آیتوں کو قرآن میں دیکھ لیںگے اور اس کے الہامی معنی سمجھ لیںگے تو ان کو کامل یقین ہو جائے گا کہ مرزاقادیانی اس پائے کے شخص ہیں کہ خدائے تعالیٰ نے پہلے ہی سے ان کی خبریں قرآن میں دے رکھی ہیں۔ کیونکہ جاہلوں کو ایسی باتوں کا یقین اکثر ہو جایا کرتا ہے۔ چنانچہ کسی گاؤں کا واقعہ ہے کہ وہاں ایک ہندو زمیندار تھا۔ جس کا نام ابا تھا اور تعظیماً اس کو لوگ اباجی کہتے تھے۔ ایک معمر اور عقلمند شخص ہونے کی وجہ سے اس کی وقعت رعایا کے دل میں جمی ہوئی تھی۔ اتفاقاً کوئی مولوی صاحب اس گاؤں میں گئے ایک شخص نے ان سے پوچھا کہ حضرت ہمارے اباجی کا بھی نام آپ کے قرآن میں ہے۔ مولوی صاحب نے کہا ہاں موجود ہے۔ ابیٰ واستکبر وکان من الکافرین اور اتفاقاً وہ کمبخت کا نا بھی تھا یہ سنتے ہی وہاں کے لوگوں کو بڑا فخر ہوگیا کہ ہمارے کانے اباجی کا ذکر مسلمانوں کے قرآن میں بھی موجود ہے۔
	ان الہاموں میں یہ خاص طریقہ اس غرض سے اختیار کیاگیا کہ جاہلوں میں شور شغب ہو کہ مرزا قادیانی کا ذکر قرآن میں موجود ہے اور یہ بھی غرض تھی کہ علماء کی نظروں میں یا عیسیٰ والا الہام دوسرے الہاموں میں چھپا رہے اور کسی کو اس طرف توجہ نہ ہو کہ یا عیسیٰ کہہ کر مرزاقادیانی کو خدا کا خطاب کرنا کیسا۔ پھر بتدریج خاص مثیل عیسیٰ ہونے کا دعویٰ شروع کیا۔ چنانچہ (ازالۃ الاوہام ص۱۹۰، خزائن ج۳ ص۱۹۲) میں لکھتے ہیں کہ ’’آٹھ سال سے برابر شائع ہورہا ہے کہ میں مثیل مسیح ہوں۔‘‘ اور اس میں لکھتے ہیں کہ ’’اس عاجز کو اﷲتعالیٰ نے آدم صفی اﷲ کا مثیل قرار دیا اور کسی کو علماء میں سے اس بات پر ذرا رنج دل میں نہیں گذرا اور پھر مثیل نوح اور مثیل یوسف اور مثیل داؤد اور مثیل ابراہیم علیہم السلام قرار دیا۔ یہاں تک نوبت پہنچی کہ بار بار یا احمد کے 
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 بسم اﷲ الرحمن الرحیم! 1 1
Flag Counter