Deobandi Books

احتساب قادیانیت جلد 21 ۔ غیر موافق للمطبوع - یونیکوڈ

16 - 377
امکانی طور پر تصدیق کرچکے اور بدل وجان مان چکے… مگر ان کو بھی منکرانہ جوش دل میں اٹھتا ہے۔‘‘ تعجب کی کوئی بات نہیں اس وقت یہ خیال جما ہوا تھا کہ مرزاقادیانی سچ مچ مسلمانوں کی طرف سے کفار کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ اس لئے ان الہاموں کو مصلحتاً دائرہ امکان میں داخل کردیا۔ مگر وہ امکان ایسا ہے جیسے کروڑ سرکاآدمی پیدا ہونا ممکن ہے۔ جس کا بدل وجان ماننا ممکن نہیں۔ پھر جب مرزاقادیانی کا حال معلوم ہوگیا کہ مسلمانوں کے بلکہ اسلام کے دشمن ہیں۔ اس لئے ان کو بھی مثل تمام مسلمانوں کے انکار کا جوش پیدا ہوگیا۔
	یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس کی کیا وجہ کہ باوجود ان تمام دعوؤں کے مرزاقادیانی نے نبوت مستقلہ کا دعویٰ نہیں کیا اور اپنی نبوت ورسالت کو ظلی بتاتے ہیں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ یقین کیونکر کیا جائے کہ استقلال کا دعویٰ ان کے پیش نظر نہیں ہے۔ براہین احمدیہ کی تصنیف کے زمانے میں بھی تو کوئی دعویٰ نہ تھا۔ صرف تمہید ہی تمہید تھی۔ مگر جب موقع مل گیا تو وہ سب تمہیدات دعوؤں کی شکل میں آگئے۔ اسی طرح بحسب ضرورت باقی دعوے بھی وقتاً فوقتاً ظہور میں آتے جائیںگے اور اس پر قرینہ بھی موجود ہے کہ ان تمام دعوؤں میں کہیں بھی ظلیت کا نام نہیں لیا گیا۔ چونکہ مقصود کامیابی ہے سو وہ لفظ طفیلیت کی بدولت ہو رہی ہے۔ اگر مستقل نبوت کا دعویٰ کریں تو اندیشہ لگا ہوا ہے کہ کہیں کل تمہیدات اور بنی بنائی بات بگڑ نہ جائے۔ کیونہ اس پر کوئی مسلمان راضی نہ ہوگا کہ خاتم النبیینﷺ کے بعد کوئی مستقل نبی ہو اور بظاہر یہ بھی ممکن نہیں ہوتا کہ کوئی دوسرے فرقے والا ان کی نبوت کی تصدیق کرے۔ اس لئے کہ ایک مدت دراز سے اشتہارات اور کتب شائع کر رہے ہیں۔ مگر اب تک کوئی عیسائی یا ہندو قادیانی سنا نہیں گیا۔ یہ تو آخری زمانے والے مسلمانوں ہی کی قسمت ہے۔ جو جوق جوق کھینچے جاتے ہیں۔
	غرض جب انہوں نے دیکھا کہ ایک بنی بنائی امت صرف لفظ طفیلی اور ظلی کہہ دینے سے اپنی امت ہو جاتی ہے تو اس لفظ کے کہنے سے کیا نقصان بلکہ اس قسم کے اور کئی الفاظ کہہ دئیے جائیں تو بھی کیا قباحت۔ اسی وجہ سے (ازالۃ الاوہام ص۱۳۷، خزائن ج۳ ص۱۷۰) میں لکھتے ہیں کہ ’’ایک لفظ قرآن کا کم وزائد نہیں ہوسکتا۔‘‘ اور (ازالۃ الاوہام ص۱۳۷، خزائن ج۳ ص۱۷۰) میں لکھتے ہیں کہ ’’کوئی ایسا الہام نہیں ہوسکتا جس سے قرآن میں تغیر ہو۔‘‘ اسی قسم کی اور عبارتیں بھی ہیں جن سے کمال درجے کا تدیّن نمایاں ہے۔ مگر چونکہ اغراض ذاتی ثابت کرنے میں اکثر قرآن وحدیث کی مخالفت کی ضرورت پڑتی تھی۔ اس لئے یہ قاعدہ قرار دیا جو (ازالۃ الاوہام ص۱۳۹، خزائن ج۳ ص۱۷۱) میں لکھا ہے کہ ’’کشف سے معانی قرآن نئے طور سے کھلتے ہیں تو لوگ اس کا انکار کرتے ہیں۔‘‘
	اب قرآن میں کمی وزیادتی کی ضرورت ہی کیا۔ آسان طریقہ نکل آیا کہ جو آیت قرآنی اپنے مقصود کے مخالف ہو اس کے معنیٰ کشف سے بحسب ضرورت گھڑ لئے اور قرآن بلاکم وزیادت اپنی جگہ رکھا رہا۔ جیسے ایک جعلی نبی کو ’’حرمت علیکم المیتۃ والدم ولحم الخنزیر (مائدہ:۳)‘‘ میں کشف سے معلوم ہوا تھا کہ میتہ اور دم وغیرہ پڑھنے سے مراد چند معیّن اشخاص تھے۔ جن کے لئے حرّمت کا لفظ استعمال کیاگیا۔ مردار اور سور اور خون وغیرہ سے اس آیت کو کیا تعلق۔ یہ سب چیزیں حلال طیب ہیں۔ دیکھئے ابھی معلوم ہوا کہ مرزاقادیانی (ازالۃ الاوہام ص۱۹۸، خزائن ج۳ ص۱۹۶) میں لکھتے ہیں کہ ’’یہ بیان جو براہین میں درج ہوچکا ہے اس سرسری پیروی کی وجہ سے تھا جو ملہم کو قبل انکشاف اصل حقیقت اپنے نبی کے آثار مرویہ کے لحاظ سے لازم ہے۔‘‘
	آثار مرویہ کے مضامین جو مرزاقادیانی نے براہین میں لکھے ہیں اوراس کی ابھی نقل کی گئی۔ یہی ہیں کہ عیسیٰ علیہ السلام نہایت جلالت کے ساتھ دنیا میں اتریںگے اور الہام سے ان کو معلوم 
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 بسم اﷲ الرحمن الرحیم! 1 1
Flag Counter