Deobandi Books

احتساب قادیانیت جلد 21 ۔ غیر موافق للمطبوع - یونیکوڈ

106 - 377
میں اس قسم کی باتوں سے ہوتا ہے۔ ایسا نہیں کرنے کا اور اسی وقت معلوم ہوجائے گا اور وہی نشانیاں جو خدا نے انسان کی فطرت میں رکھی ہیں۔ لوگوں کو دیکھا دے گا۔‘‘ خاں صاحب تو خدا کا نام تبرکاً لیا کرتے ہیں تاکہ مسلمانوں میں بھی اپنا نام رہے۔ اس لئے ان کا صفت احیائے موتیٰ سے انکار کرنا بے موقع نہیں۔ مگر مرزاقادیانی سے حیرت ہے کہ اس مسئلے میں وہ بھی ان کے ہم خیال ہوگئے اور صرف اتنی اصلاح کی کہ مردے کی حرکت مسمریزم کی وجہ سے تھی۔ خاں صاحب کی رائے مرزاقادیانی سے کم نہ تھی۔ مگر چونکہ وہ فن تاریخ میں مہارت رکھتے تھے ان کو معلوم تھا مسمریزم کا اس وقت وجود ہی نہ تھا۔ اس لئے اس رائے کو پسند نہیں کیا۔ مرزاقادیانی نے دیکھا کہ جو لوگ خلاف قرآن وحدیث حسن ظن سے اپنی بات کو مان لیںگے ان پر خلاف تاریخ مان لینا کیا دشوار ہے۔ غرض ان لوگوں نے قرآن کو کھلونا بنالیا ہے۔ اس کی کچھ پروا نہیں کہ خدا کے کلام کو بگاڑنا اور اس کی مرضی کے خلاف تفسیر بالرائے کرنا مسلمان کا کام نہیں۔ اس سے یہ غرض کہ حسن ظن والے سمجھ جائیں کہ وہ تفسیر کرنا کس درجے کا گناہ ہے اور طرفہ یہ ہے کہ مرزاقادیانی یہ بھی لکھتے ہیں کہ تفسیر بالرائے نہیںکرتے۔ اس آیت شریفہ میں بھی مرزاقادیانی کو کلام ہے۔ حق تعالیٰ فرماتا ہے ’’واذ قال ابراہیم رب ارنی کیف تحیی الموتیٰ قال اولم تؤمن قال بلی ولاکن لیطمئن قلبی قال مخذ اربعۃ من الطیر فصرھن الیک ثم اجعل علیٰ کل جبل منھن جزاً ثم ادعھن یاتینک سعیاً واعلم ان اﷲ عزیز حکیم (بقرہ:۲۶۰)‘‘ {اور جب کہا ابراہیم نے اے رب دکھا مجھ کو کیونکر جلائے گا تو مردے تو فرمایا کیا تم نے یقین نہیں کیا، کہا کیوں نہیں۔ لیکن اس واسطے کہ تسکین ہو میرے دل کو فرمایا تم پکڑو چار جانور اڑتے پھر ان کو بلاؤ اپنے ساتھ پھر ڈالو ہر پہاڑ پر ان کا ایک ایک ٹکڑا پھر ان کو پکارو کہ وہ آئیں تمہارے پاس دوڑتے اور جان لو کہ اﷲ زبردست حکمت والا ہے۔}
	مقصود ان پروندوں کے ہلانے سے یہ تھا کہ ابراہیم علیہ السلام کو اس بات میں پوری شناخت ان کی ہو جائے اور زندہ ہونے کے بعد ان کی آواز پر دوڑائیں اور ابراہیم علیہ السلام کو شناخت کی وجہ سے دوسرے پرندوں کا اشتباہ نہ ہو۔ ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ فصرھن کے معنی ٹکڑے ٹکڑے کرنے کے ہیں۔ جیسا کہ (بخاری شریف ج۲ ص۶۵۱، باب وقولہ واذقال ابراہیم الیٰ رب ارنی کیف تحیی الموتیٰ) میں ہے۔ فصرہن اے قطعہن (درمنثورج۱ ص۳۳۵) میں امام سیوطیؒ نے نقل کیا ہے۔  ’’عن ابن عباسؓ فصرہن قال ہی بالنطیۃ شققہن‘‘  اور اسی میں یہ بھی عبارت ہے۔ ’’عن ابن عباسؓ قال وضعہن علیٰ سبعۃ اجبل واخذ الرؤس فجعل ینظر الیٰ القطرۃ تلقی القطرۃ والریشۃ تلقی الریشۃ حتیٰ صرن احیاء لیس لہن رؤس فجئن الیٰ روسہن فد خلن فیہا‘‘ یعنی ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ ابراہیم علیہ السلام نے ان پرندوں کے ٹکڑے کر کے سات پہاڑوں پر رکھ دئیے اور سروں کو اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ پھر قطرے سے قطرہ اور پرسے پر ملنے لگے۔ جس کو وہ دیکھ رہے تھے۔ یہاں تک وہ زندہ ہوگئے۔ اپنے اپنے سروں سے آملے۔ ان روایات کے بعد اس کا انکار نہیں ہوسکتا کہ ان چاروں پرندوں کی بوٹیاں پہاڑوں پر رکھی گئی تھیں۔ جو زندہ ہوکر ابراہیم علیہ السلام کے پکارنے پر آگئے اور انہوں نے ان کے زندہ ہونے کو بچشم خود دیکھ لیا اور سیاق آیت سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے۔ اس لئے کہ ان کی درخواست یہ تھی کہ مردوں کو زندہ کرنے کی کیفیت دکھلائی جائے۔ رب ارنی کیف تحیی الموتیٰ اس پر ارشاد ہوا کہ کیا تمہیں اس پر ایمان نہیں عرض کیا۔ ایمان تو ہے لیکن میں اس سے اپنی خلت کا اطمینان چاہتا ہوں کہ اگر میں فی الواقع خلیل ہوں تو یہ دعا مقبول ہو جائے۔ درحقیقت انہوں نے اس دعا کی اجابت کو اپنی خلت کی نشانی قرار دی تھی۔ نفس احیائے موتیٰ سے چنداں تعلق نہ تھا۔ چنانچہ امام سیوطیؒ نے (درمنثور ج۱ ص۳۳۴) میں لکھا ہے۔ ’’عن ابن عباسؓ فی قولہ ولکن لیطمئن قلبی یقول اعلم انک تجیبنی اذا دعوتک وتعطنی اذا اسألتک‘‘ یعنی یہ اطمینان چاہتا ہوں کہ اگر خلت متحقق ہے تو میری دعا قبول ہوگی اور جو مانگوں گا وہ تو دے گا اور نیز (درمنثور ج۱ ص۳۳۴) میں ہے۔ ’’عن السدی یقول رب ارنی کیف تحیی الوتیٰ حتیٰ اعلم انی خلیلک قال اولم تؤمن یقول تصدق بانی خلیک قال بلیٰ 
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 بسم اﷲ الرحمن الرحیم! 1 1
Flag Counter