Deobandi Books

احتساب قادیانیت جلد 21 ۔ غیر موافق للمطبوع - یونیکوڈ

105 - 377
ہیں۔ مگر مرزاقادیانی جہاں تک ہوسکتا ہے مسمریزم میں ان کو داخل کر کے ان کی توہین اور تذلیل کرتے ہیں۔ چنانچہ (ازالۃ الاوہام ص۳۰۹ حاشیہ، خزائن ج۳ ص۲۵۷،۲۵۸) میں لکھتے ہیں۔ ’’یاد رکھنا چاہئے کہ یہ عمل (مسمریزم) ایسا قدر کے لائق نہیں۔ جیسا کہ عوام الناس اس کو خیال کرتے ہیں۔ اگر یہ عاجز اس عمل کو مکروہ اور قابل نفرت نہ سمجھتا تو خدائے تعالیٰ کے فضل وتوفیق سے امید قوی رکھتا تھا کہ ان اعجوبہ نمائیوں میں حضرت ابن مریم سے کم نہ رہتا۔‘‘
	مرزاقادیانی کے اس قول پر کہ میں بھی اگر چاہتا تو عیسیٰ علیہ السلام کے معجزات دکھلاتا۔ عمیرتیان کا قول یاد آتا ہے جس کو ابن حزمؒ نے (ملل ونحل ج۳ ص۱۲۰) میں لکھا ہے کہ ’’عمیرتیان نے کوفے میں نبوت کا دعویٰ کر کے بہت سے لوگوں کو فراہم کرلیا تھا۔ جب اپنے اصحاب میں بیٹھتا تو اکثر کہتا کہ اگر میں چاہوں تو اس گھانس کو ابھی سونا بنادوں۔ آخر خالد بن عبداﷲ قسری نے اس کو قتل کیا۔‘‘ غرض مرزاقادیانی کی تقریر سے ظاہر ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام اور دوسرے انبیاء جو معجزات دکھلاتے تھے وہ دراصل عمل مسمریزم تھا۔ جو مکروہ اور قابل نفرت ہے۔ یہاں یہ امر محتاج بیان نہیں کہ جو لوگ ایسے قبیح کام کر کے ان کو معجزہ من جانب اﷲ بتائیں وہ کس قسم کے آدمی سمجھے جائیںگے۔ حالانکہ حق تعالیٰ ان کی فضیلت کی تصریح فرماتا ہے۔ ’’تلک الرسل فضلنا بعضھم علیٰ بعضٍ منہم من کلم اﷲ ورفع بعضھم درجاتٍ واتینا عیسیٰ ابن مریم البینات وایدناہ بروح القدس (بقرہ:۲۵۳)‘‘ {وہ سب رسول فضیلت دی ہم نے ایک کو دوسرے سے اﷲ نے بعضوں سے کلام کیا اور بعضوں کے درجے بلند کئے اور دیں ہم نے عیسیٰ بن مریم کو نشانیاں صریح اور قوت دی ہم نے روح القدس سے۔}
	اب اس کلام کے سننے کے بعد بھی کیا کسی مسلمان کو جرأت ہوسکتی ہے کہ ان معزز حضرات میں سے کسی کی توہین وتذلیل کرے۔ حق تعالیٰ فرماتا ہے ’’وﷲ العزۃ ولرسولہ وللمؤمنین ولکن المنافقین لا یعلمون (منافقون:۸)‘‘ {یعنی اﷲ کو عزت ہے اور اس کے رسول کو اور مسلمانوں کو لیکن یہ بات منافق لوگ نہیں جانتے۔}
	مرزاقادیانی (ازالۃ الاوہام ص۱۳۹، خزائن ج۳ ص۱۷۰) میں فرماتے ہیں۔ ’’افسوس ہماری قوم میں ایسے لوگ بہت ہیں جو بعض حقائق ومعارف قرآنیہ اور دقائق آثار نبویہ کو جو اپنے وقت پر بذریعہ کشف والہام زیادہ تر صفائی سے کھلتے ہیں۔ محرمات اور بدعات ہی میں داخل کر لیتے ہیں۔‘‘ خود ہی غور فرمائیں کہ جب حقائق قرآنیہ یہ ہوں کہ حق کی حقیقت باطل یعنی معجزے کی حقیقت مسمریزم اور عزت کی حقیقت ذلت اور نبی معزز کی حقیقت ذلیل وغیرہ ثابت ہورہی تو تھوڑی الٹ پلٹ میں اسلام کی حقیقت کفر اور کفر کی حقیقت اسلام ثابت ہو جانے کو کیا دیر لگے گی اور تعجب نہیں کہ اسی قسم کا خیال پختہ بھی ہوگیا ہو۔
	افسوس ہے کہ مرزاقادیانی کو جس قدر مسمریزم سے خوشی اعتقادی اور اس پر وثوق ہے۔ خدائے تعالیٰ کی قدرت پرنہیں۔ اگر عقل کی راہ سے بھی دیکھا جائے تو خدائے تعالیٰ کا اس مردے کو زندہ کرنا جس قدر اطمینان بخش ہے مسمریزم کی بدنما کارروائی سے نہیں ہوسکتا۔ مگر مرزاقادیانی کی عقل اسی کی مقتضیٰ ہوئی۔ سرسید احمد خاں صاحب بھی اس مردے کے زندہ ہونے کو نہیں مانتے۔ چنانچہ (تفسیر القرآن ص۱۲۵،۱۲۶ حصہ اوّل) میں لکھتے ہیں کہ ’’بنی اسرائیل میں ایک شخص مارا گیا تھا اور قاتل معلوم نہ تھا۔ اﷲتعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے دل میں یہ بات ڈالی کہ سب لوگ جو موجود ہیں اور انہیں میں قاتل ہے۔ مقتول کے اعضاسے مقتول کو مارے جو لوگ درحقیقت قاتل نہیں وہ بسبب یقین اپنی بے جرمی کے ایسا کرنے میں کچھ خوف نہ کریںگے۔ مگر اصل قاتل بسبب خوف اپنے جرم کے جو ازروئے فطرت انسان کے دل میں اور بالتخصیص جہالت کے زمانے 
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 بسم اﷲ الرحمن الرحیم! 1 1
Flag Counter