Deobandi Books

احتساب قادیانیت جلد 21 ۔ غیر موافق للمطبوع - یونیکوڈ

107 - 377
ولکن لیطمئن قلبی بخلولتک‘‘ یعنی احیائے موتیٰ کی دعاء اس غرض سے کی کہ اس کے قبول ہونے سے خلت کا یقین ہو جائے ارشاد ہوا کیا اس کا یقین نہیں۔ عرض کی یقین تو ہے لیکن اطمینان چاہتا ہوں جو دعا کی قبولیت پر موقوف ہے۔ اب اس سوال وجواب اور دوسرے قرآئن پر غور کرنے کے بعد عقل سے تھوڑا سا کام لیا جائے کہ باوجود قدرت کے خدائے تعالیٰ اپنے خلیل کو نشانی دکھلا کر مطمئن فرمایا ہوگا یا نہیں۔ ادنیٰ تامل سے معلوم ہوسکتا ہے نہ بحسب روایات اس کا انکار ہوسکتا ہے۔ نہ بحسب درایت۔ مگر مرزاقادیانی کہتے ہیں کہ نہ کوئی پرندہ زندہ ہوا نہ خلیل اﷲ کی دعا قبول ہوئی بلکہ دعا پر یہی حکم ہوا کہ مسمریزم کے ذریعے سے پرندوں کو اپنی طرف کھینچ لو تو معلوم ہو جائے گا کہ مردے بھی ایسے ہی زندہ ہوںگے۔ چنانچہ (ازالۃ الاوہام ص۷۵۲،۷۵۳، خزائن ج۳ ص۵۰۶) میں لکھتے ہیں۔ ’’یاد رکھنا چاہئے کہ جو قرآن میں چار پرندوں کا ذکر لکھا ہے کہ ان کو اجزاء متفرقہ یعنی جدا جدا کر کے چار پہاڑیوں پر چھوڑا گیا تھا اور پھر وہ بلانے سے آگئے تھے۔ یہ بھی عمل الترب (مسمریزم) کی طرف اشارہ ہے… ممکن ہے کہ انسان کی قوت مقناطیسی اس حد تک ترقی کرے کہ کسی پرند یا چرند کو صرف اپنی طرف کھینچ لے۔ ’’فتدبر ولا تغفل‘‘
	اہل علم پر پوشیدہ نہیں کہ ’’فخذ اربعۃ من الطیر‘‘ میں جو فاہے گویا تفریع اسی دعا پر ہے جو مردوں کو زندہ کرنے کے باب میں تھی۔ جس سے ظاہر ہے کہ وہ دعا قبول ہوئی اور پرندوں کو ذبح کرنے کا حکم ہوا ور نہ صرف ارشاد ہوجاتا کہ یہ دعا کیسی مردوںکو زندہ کرنا تو اس عالم میں نہیں ہوسکتا۔ بلکہ خلاف مرضی دعا ہوتی تو اس پر عتاب ہوجاتا جیسے دیدار الٰہی کی درخواست کرنے والوں پر عتاب ہوا تھا۔ جن پر بجلی گرائی گئی اور وہ جل کر ڈھیر ہوگئے۔ ’’فقالو ارنا اﷲ جھرۃ فاخذتہم الصاعقۃ (نسائ:۱۵۳)‘‘ غرض جب قرائن سے معلوم ہوا کہ دعاء احیائے موتیٰ قبول ہوئی تو اس کے بعد بجائے احیائے موتیٰ مسمریزم کا خیال کرنا گویا درپردہ یہ کہنا ہے کہ نعوذ باﷲ حق تعالیٰ کو احیائے موتیٰ کی قدرت نہ تھی اور مسمریزم کے عمل کے بعد بھی ان کا مقصود جو خلت کی نشانی معلوم کرنا تھا۔ حاصل نہ ہوا کیونکہ نشانی تو احیاء تھی اور اس عمل سے جو معلوم ہوا اسی قدر تھا کہ انسان کے روحانی تصرف سے جانور بھی مسخر ہو جاتے ہیں۔ جس سے ان کی دعا کو کوئی تعلق نہیں اور اگر یہ غرض تھی کہ اس پر قیاس کریں کہ جیسے پرندے بلاتے ہی آجائیں گے۔ روحوںکو بھی خدائے تعالیٰ ایسا ہی بلالے گا تو یہ مثال قائم کرنے کے لئے اس سے آسان طریقہ یہ تھا کہ کسی خادم کو پکارنے کا حکم ہو جاتا جو پرندوں سے بھی پہلے پکارتے ہی آکھڑا ہوتا اور مسمریزم کی مشاقی حاصل کرنے کی زحمت جو ضرورت سے زیادہ تھی اٹھانی نہ پڑتی۔ پھر ابراہیم علیہ السلام کو احیائے موتیٰ دیکھنے سے خواہ خلت کی نشانی معلوم کرنا منظور ہو یا مشاہدہ احیاء اس مسمریزم سے دونوں مقصود فوت ہیں اور ایمان بالغیب جو پہلے تھا وہی اس کے بعد بھی رہانہ دعا سے کچھ فائدہ ہوا نہ اجابت دعا سے بلکہ بہت بڑا نقصان یہ لازم آتا ہے کہ خلت کا جو پہلے سے ایمان تھا۔ نعوذ باﷲ وہ بھی جاتا رہے اس لئے کہ باوجود قدرت کے جب اس کی نشانی نہیں دکھلائی جائے تو یہی یقین ہوگا کہ دراصل اس کا وجود نہیں۔ حالانکہ انبیاء اپنے اطمینان کے لئے جب کوئی نشانی طلب کرتے ہیں تو وہ ان کو دکھلائی جاتی ہے۔ چنانچہ زکریا علیہ السلام کے قصے سے ثابت ہے کہ ’’قال رب انی یکون لی غلام وقد بلغنی الکبر وامراتی عاقر قال کذلک اﷲ یفعل ما یشاء قال رب اجعل لی آیۃ قال آیتک ان لا تکلم الناس ثلثہ ایام الارمزا (آل عمران:۴۰،۴۱)‘‘ حاصل یہ کہ جب فرشتوں نے زکریا علیہ السلام کو اﷲتعالیٰ کی طرف سے خوشخبری سنائی کہ آپ کو ایک فرزند ہوگا۔ جس کا نام یحییٰ ہے۔ عرض کی کہ اے رب مجھے کیونکر لڑکا ہوگا۔ ایسی حالت میں کہ میں بوڑھا ہوں اور میری بی بی بانجھ ہے۔ فرمایا خدائے تعالیٰ جو چاہے کر سکتا ہے۔ پھر عرض کی اے رب اس کی کوئی نشانی مقرر فرما۔ جس سے حمل کا وقت معلوم ہوجائے۔ ارشاد ہوا کہ تین روز تک تم لوگوں سے بات نہ کر سکوگے۔ سوائے اشارے کے ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ زکریا علیہ السلام کی عمر ایک سو بیس سال 
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 بسم اﷲ الرحمن الرحیم! 1 1
Flag Counter