Deobandi Books

احتساب قادیانیت جلد 21 ۔ غیر موافق للمطبوع - یونیکوڈ

102 - 377
منٹ کے لئے گرمی آجاتی ہے۔ اس طرح عیسیٰ علیہ السلام بھی چند منٹ کے لئے قریب الموت شخص کو کسی قسم کی گرمی پہنچا دیا کرتے تھے۔‘‘ مگر اس کا ذکر نہ قرآن میں، نہ حدیث میں، نہ اب تک کوئی مسلمان اس کا قائل ہوا۔ بلکہ مسیح کا نام اسلام میں احیاء اموات اور شفائے بیماروں کے باب میں ایسا مشہور اور ضرب المثل ہے۔ جیسے حاتم کا نام جودوسخا میں، قرآن وحدیث سے مرزاقادیانی کو وہیں تک تعلق ہے کہ اپنا مطلب بنے اور جب کوئی بات ان کی مرضی اور مقصود کے خلاف نکلی تو پھر نہ قرآن کو مانیں نہ حدیث کو، کیا نبیﷺ نے اس آیت کے یہی معنی سمجھے ہوںگے کہ وہ مسمریزم سے حرکت دیاکرتے تھے۔ مسمریزم کو نکل کر تو سوبرس بھی نہیں ہوئے۔ چنانچہ فن مسمریزم کی کتابوں میں لکھا ہے کہ ’’یورپ وسطی میں راس نامی ایک بڑا دریا ہے۔ جس کے کنارے پر چھوٹا سا قصبہ سپٹین نامی مشہور ہے۔ اس قصبے میں ۵؍مئی۱۷۳۴ء میں ایک مشہور ڈاکٹر جس کا نام انتونی مسمر تھا پیدا ہوا اور اس نے اپنی بے حد کوششوں سے اس فن کو ایجاد کیا۔ چنانچہ اس کے نام سے مسمریزم مشہور ہوا۔‘‘ اب مرزاقادیانی کے اس قول کو بھی یاد کر لیجئے جو فرمایا تھا کہ قرآن کا ایک لفظ کم وزائد نہیں ہوسکتا۔ دیکھ لیجئے قرآن کے کل الفاظ اپنی جگہ رکھے رہے اور مرزاقادیانی نے عیسیٰ علیہ السلام کے معجزات کا خاتمہ کردیا۔ 
	غرض مرزاقادیانی نے جو معنی اس آیت شریفہ کے تراشے ہیں وہ ایسے ہیں جیسے ابومنصور نے ’’حرمت علیکم المیتۃ والدم ولحم الخنزیر (مائدہ:۳)‘‘ کے معنی تراشے تھے۔ مسلمانوں کو ان کی پیروی میں سخت ضرر اخروی ہے۔ حق تعالیٰ فرماتا ہے۔ ’’ان الذین یحادون اﷲ ورسولہ کبتوا کما کبت الذین من قبلھم (مجادلہ:۵)‘‘یعنی جو لوگ خدا اور رسول کی مخالفت کرتے ہیں خوار وذلیل ہوںگے۔ جیسے وہ لوگ ذلیل ہوئے جو ان سے پہلے تھے اور ارشاد ہے۔ ’’ومن یشاقق الرسول من بعد ماتبین لہ الہدیٰ ویتبع غیر سبیل المؤمنین نولہ ما تولیٰ ونصلہ جھنم وساء ت مصیراً (نسائ:۱۱۵)‘‘ یعنی جو مخالفت کرے رسول اﷲ کی جب کھل گئی اس پر راہ ہدایت اور مسلمانوں کے رستے کے سوا دوسرا رستہ چلے تو جو رستہ اس نے اختیار کرلیا ہے ہم اس کو وہی رستہ چلائے جائیںگے اور آخر کار اس کو جہنم میں داخل کردیںگے اور وہ بہت بری جگہ ہے۔
	ادنیٰ تامل سے یہ بات معلوم ہوسکتی ہے کہ اس آیت شریفہ میں کمال درجے کی تخویف ہے اس لئے کہ اس سے ظاہر ہے کہ جو شخص نیا طریقہ ایجاد یا اختیار کرے اس سے توفیق الٰہی مسدود اور منقطع ہو جاتی ہے اور صراط مستقیم سے علیحدہ کر کے حق تعالیٰ اس کو ایسے رستے پر چلاتا ہے جو سیدھا جہنم میں نکلے۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ آج کل کے مسلمانوںمیں جو فتور وقصور عمل ہوگیا ہے وہی طریقہ اختیار کیا جائے۔ بلکہ مقصودیہ ہے کہ کتب اہل سنت وجماعت میں جو طریقہ عمل واعتقاد کا مذکور ہے وہ اختیا کیا جائے۔
	مرزاقادیانی کو اس کا بڑا ہی غم ہے کہ نیچری قرآن وحدیث کو نہیں مانتے۔ چنانچہ (ازالۃ الاوہام ص۵۵۵، خزائن ج۳ ص۳۹۹) میں تحریر فرماتے ہیں کہ ’’حال کے نیچری جن کے دلوں میں کچھ بھی عظمت قال اﷲ وقال الرسول کی باقی نہیں رہی۔‘‘ مگر مشکل یہ ہے کہ اگر وہ مرزاقادیانی کی اس قسم کی تقریریں کہیں سن لیں تو یہ کہنے کو مستعد ہوجائیںگے کہ مرزاقادیانی کے دل میں بھی عظمت نہیں۔ جب ہی تو خدا اور رسول جن کی عظمت بیان کی جاتی ہے وہ ان کی توہین کرتے ہیں اور اپنی ذاتی غرض کے مقابلے میں نہ خدا کی بات مانتے ہیں نہ رسول کی۔ آپ نے دیکھ لیا کہ عیسیٰ علیہ السلام کے معجزے جن کو متعدد مقاموں میں حق تعالیٰ نے ذکر فرمایا ان کو آیات بینات کہا۔ مرزاقادیانی نے ان کے ابطال میں کیسی کیسی باتین بنائیں۔ ان کو مشرکانہ خیال قرار دیا اور کہا کہ وہ معمولی طاقت بشری سے صادر ہوتے ہیں اور حوض کی وجہ سے وہ مشتبہ ہوگئے تھے اور مسمریزم کے وہ زیراثر چوتھے۔ آب ازسرگذشت چہ یک نیزہ وچہ یکدست! 

x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 بسم اﷲ الرحمن الرحیم! 1 1
Flag Counter