Deobandi Books

احتساب قادیانیت جلد 21 ۔ غیر موافق للمطبوع - یونیکوڈ

101 - 377
	مگر حق تعالیٰ فرماتا ہے۔ ’’واذ جاء تہم آیۃ قالوا لن نوء من حتیٰ نوتیٰ مثل ما اوتیٰ رسل اﷲ اﷲ اعلم حیث یجعل رسالتہ سیصیب الذین اجرموا صغار عند اﷲ وعذاب شدید بما کانوا یمکرون (انعام:۱۲۴)‘‘ {یعنی جب ان کے پاس کوئی آیت قرآنی آتی ہے تو کہتے ہیں ہم ہرگز نہ مانیںگے۔ جب تک وہ خبر نہ دی جائے جو رسولوں کو دی گئی۔ اﷲ اس مقام کو بہتر جانتا ہے۔ جس کو رسالت کے لئے خاص کرتا ہے۔ جو لوگ خود پسند ہیں گناہگار ہیں۔ ان کو عنقریب اﷲ کے ہاں ذلت ورسوائی اور بڑا سخت عذاب ان کے فتنہ انگیزیوں کے سبب پہنچے گا۔} حاصل یہ کہ جو لوگ انبیاء کی خصوصیات اور مراتب کو دیکھ کر نبوت کی تمنا کرتے ہیں۔ دنیا میں رسوا اور آخرت میں عذاب شدید کے مستحق ہوتے ہیں۔ جس کو خدا کے کلام پر پورا ایمان اور تھوڑی سی بھی عقل ہو ممکن نہیں کہ کسی نبی کی برابری کا دعویٰ کرے۔
	یہاں یہ بات قابل توجہ ہے کہ جب ایسا حوض عیسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں تھا کہ مایوس العلاج امراض والوں کو صرف اس میں ایک غوطہ لگانے سے شفا ہوجاتی تھی تو تمام روئے زمین کے بیمار وہاں جمع رہتے ہوںگے تو پانچ اساروں میں ان کی گنجائش کیونکر ہوتی ہوگی اور جب یہ یقین تھا کہ جو پہلے حوض میں کودے اسی کو صحت ہوتی ہے تو ہر شخص یہی چاہتا ہوگا کہ سبقت کر کے سردست صحت حاصل کر لے۔ یہ تو ممکن نہیں کہ ہر شخص دوسرے سے کہے کہ تم صحت پاکر جلدی سے چلے جاؤ اور ہم اس فرشتے کے انتظار میں یہاں سڑتے پڑے رہیںگے اور ان پانچ اساروں میں کس قدر گھوسم گھسا سا اور خانہ جنگیاں ہوتی ہوںگی۔ کتنے تو اسی بھیڑ میں دم گھٹ گھٹ کر مرتے ہوںگے اور کتنے پانی میں گراکر ڈبوئے جاتے ہوںگے اور کتنوں کا زدوکوب سے خون ہوتا ہوگا۔ پھر اس فرشتے کے اترنے کا وقت معلوم نہ ہونے کی وجہ سے لوگوں کا ہمیشہ جھمگھٹا رہتا ہی ہوگا۔ جس سے ہوا میں عفونت اور سمیت پیدا ہوکر صدہا آدمی مرتے ہی ہوںگے۔ غرض کوئی عاقل قبول نہیں کر سکتا کہ ایک غیر معین شخص کی صحت کے واسطے صدہا موتیں گوارا کی جاتی ہوںگی۔ پھر اس فرشتے کو اتنا بخل یا آدمیوں سے عداوت کیوں تھی کہ کبھی کبھی پانی میں اترکر ہلادیتا تھا۔ اگر گھنٹے یا آدھ گھنٹے پر پانی میں اتراکرتا تو کیا اس کو سردی ہوجاتی یا فالج وغیرہ کا مادہ پیدا ہوجاتا اور اس کی کیا وجہ کہ جو مریض سب سے پہلے اس میں کودے وہی شفایاب ہو جائے۔ اگر کوئی اس میں زہرملا مادہ تھا تو ہر طرف تھا کیونکہ کوئی ایک جگہ معین نہ تھی جس سے شفا متعلق ہو۔
	الغرض عقل کی رو سے یہ بات ہرگز سمجھ میںنہیں آتی کہ ایسے حوض کا کہیں بھی دنیا میں وجود ہوا ہو۔ مرزاقادیانی نے انجیل پر ایمان لاکر قرآن پر اس حوض سے ایسے ایسے اعتراضات قائم کر دئیے جن کی نسبت فرماتے ہیں کہ ’’وہ اعتراضات اٹھ نہیں سکتے۔‘‘ مگر افسوس ہے کہ قرآن پر ایمان لاکر یہ نہ فرمایا کہ حق تعالیٰ نے جو معجزات عیسیٰ علیہ السلام کو دئیے تھے وہ ایسے نہ تھے کہ ان میں ایسے مصنوعی قصوں سے کسی قسم کا شبہ واقع ہو۔ اس لئے کہ حق تعالیٰ فرماتا ہے۔ ’’واتینا عیسیٰ ابن مریم البینات (بقرہ:۲۵۳)‘‘ {یعنی عیسیٰ علیہ السلام کو ہم نے کھلے کھلے معجزے دئیے تھے جن میں کوئی شک وشبہ ممکن نہ تھا۔}
	مرزا قادیانی (ازالۃ الاوہام ص۳۱۱ حاشیہ، خزائن ج۳ ص۲۵۸،۲۵۹) میں لکھتے ہیں کہ ’’حضرت مسیح کے عمل الترب (یعنی مسمریزم) سے وہ مردے جو زندہ ہوتے یعنی وہ قریب الموت آدمی جو گویا نئے سرے سے زندہ ہو جاتے تھے۔ وہ بلاتوقف چند منٹ میں مرجاتے تھے۔ کیونکہ بذریعہ عمل الترب روح کی گرمی اور زندگی صرف عارضی طور پر ان میں پیدا ہوجاتی تھی۔‘‘ قرآن شریف میں صاف طور پر ’’واحی الموتیٰ باذن اﷲ (آل عمران:۴۹)‘‘ مگر مرزاقادیانی کہتے ہیں کہ ’’کوئی مردہ انہوں نے زندہ نہیں کیا۔ بلکہ جیسے قریب الموت شخص کو جواہر مہرہ وغیرہ سے چند 
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 بسم اﷲ الرحمن الرحیم! 1 1
Flag Counter