Deobandi Books

احتساب قادیانیت جلد 21 ۔ غیر موافق للمطبوع - یونیکوڈ

10 - 377
	ہرچند مرزاقادیانی نے تصریح کی یہ کتاب صرف قرآن شریف اور نبی کریمﷺ کی نبوت ثابت کرنے کی غرض سے لکھی گئی۔ مگر بحث نفس الہام اور مطلق نبوت کی چھیڑدی۔ گویا روئے سخن آریہ اور برھمو سماج کی طرف ہے۔ جو منکر الہام ونبوت ہیں اور یہ ثابت کیا کہ عقل سے کچھ کام چل نہیں سکتا۔ جب تک وحی الٰہی نہ ہو، نہ واقعات گذشتہ معلوم ہو سکتے ہیں۔ نہ کیفیت حشر وغیرہ نہ مباحث آلہیات پھر یہ ثابت کیا کہ وحی قطعی چیز ہے۔ جس کا انکار ہو نہیں سکتا اور اس پر زور دیا کہ وحی اور الہام ایک ہی چیز ہے اور اس کا دروازہ ہمیشہ کے لئے کھلا ہوا ہے۔ چنانچہ لکھتے ہیں ’’کیا سرمایہ خدا کا خرچ ہوگیا۔ یا اس کے منہ پر مہر لگ گئی یا الہام بھیجنے سے عاجز ہوگیا‘‘ اور رسالت میں بھی عام طور پر گفتگو کی کہ ’’وہ ہر شخص کو مل نہیں سکتی بلکہ حسب قابلیت بعض افراد کو ملا کرتی ہے۔‘‘ دیکھئے ابتدائی دعویٰ اثبات نبوت خاصہ اور کلام خاص یعنی قرآن شریف کا تھا اور ثابت یہ کیا کہ خاص خاص لوگوں کو نبوت ملا کرتی ہے اور ہمیشہ کے لئے وحی کا دروازہ کھلا ہوا ہے۔ چنانچہ اسی بناء پر اب ان کو یہ دعویٰ ہے کہ خدا نے مجھے رسول اور نبی بناکر بھیجا ہے اور اپنے پر جو وحی ہوا کرتی ہے اور وہ لوگوں پر حجت ہے۔ یہ اسی تخم کا پھل ہے جو براہین میں بویا گیا تھا۔ پھر بہت سے الہام اس میں ذکر کئے ان میں بعض خوش کن جیسے ’’وقت نزدیک رسید کہ پائے محمدیاں برمینار بلند محکم افتاد، اور بعض غرض کتاب سے بے تعلق جیسے ’’یا عیسیٰ انی متوفیک ورافعک الی۰ وکذلک مننا علی یوسف لنصرف عنہ السؤ یا احمد انا اعطیناک الکوثر۰ محمد رسول اﷲ والذین معہ الآیہ انا فتحنالک فتھا مبینا لیغفرلک اﷲ ماتقدم من ذنبک وما تاخر‘‘ (براہین احمدیہ ملخص ص۲۳۸تا۲۴۲، خزائن ج۱ ص۲۶۵،۲۶۸)
	اور جس نبی کا نام الہام میں ذکر کیا ترجمے میں لکھا کہ اس سے مراد میں ہوں۔
	چونکہ مرزاقادیانی نے آریہ وغیرہ کو مخاطب کیا تھا۔ اس لئے علماء نے خیال کیا کہ اسلام کی جانب سے اس وقت وہ برسرمقابلہ ہیں اور مبارزت کے وقت حریف پر رعب ہونے کی غرض سے اپنے افتخار اور الحرب خدعتہ کے لحاظ سے خلاف واقع بھی کچھ بیان کرنا شرعاً وعقلاً جائز ہے۔ اگر ان تدابیر سے خصم پر غلبہ ہو جائے اور وہ نفس الہام کو مان لے اور قرآن پر ایمان لائے تو ایک بڑا مقصود حاصل ہوجائے گا۔ رہی افراط وتفریط جو مرزاقادیانی کے کلام میں ہے اس کی اصلاح ہورہے گی اور نیز مرزاقادیانی نے یہ طریقہ بھی اس میں اختیار کیا کہ الہاموں میں خوب ہی اپنی تعلیاں کر کے آخر میں لکھ دیا کہ یہ سب ہمارے نبی کریمﷺ کے طفیل اور عنایت اور اتباع کے سبب سے ہے۔ جس سے مسلمانوں نے یہ خیال کر لیا کہ جب اتباع کی وجہ سے ایسے کمالات حاصل ہو سکتے ہیں تو خود آنحضرتﷺ کے کمالات کس درجے کے ہوںگے۔ غرض اس قسم کے اسباب سے کسی کو ان کے رد کی طرف توجہ نہ ہوئی اور انہوں نے دل کھول کے الہام لکھ ڈالے اور اپنے الہامی کارخانے کی بنیاد بخوبی قائم کر لی۔ اگرچہ یا عیسیٰ انی متوفیک کے الہام سے انہوں نے اپنا مقصود ظاہر کردیاتھا کہ خدا نے مجھے عیسیٰ کہہ کر پکارا مگر لوگوں کو دھوکا یہ ہوا کہ محمد رسول اﷲ وغیرہ بھی الہاموں میں شریک ہیں اور اس کے معنی خود وہ بیان کرتے ہیں کہ ان سے مثلیت عامہ مراد ہے۔ جیسے علماء امتی کا نبیاء بنی اسرائیل میں ہے۔ پھر جب ان کو دعویٰ ہی نہیں تو جواب کی کیا ضرورت۔ ظاہری عبارتوں کو فضول یا لغو سمجھ کر علماء نے التفات نہ کیا۔
	ہرچند براہین احمدیہ میں سب کچھ کہہ گئے۔ مگر اس ہوشیاری کے ساتھ کہ کسی کو رد کرنے کا موقعہ ہی نہ ملے اور عیسویت کے دعوے سے تو ایسی تبری کی کہ کسی کے خیال میں بھی نہ آئے کہ آئندہ وہ اس کا دعویٰ کریںگے۔ چنانچہ (براہین احمدیہ ص۵۰۵،۵۰۶ حاشیہ، خزائن ج۱ ص۶۰۱،۶۰۲) میں لکھتے ہیں۔ الہام ’’عسی ربکم ان یرحکم وان عدتم عدنا وجعلنا جہنم للکافرین 
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 بسم اﷲ الرحمن الرحیم! 1 1
Flag Counter